برطانیہ میں رائے دہندگان کی طر ف سے پارٹیاں بدلنےکے رجحان میں ریکارڈ اضافہ

166
Independent Urdu
Independent Urdu

لندن ۔20جون (اے پی پی):برطانیہ میں رائے دہندگان کی طر ف سے پارٹیاں بدلنےکے رجحان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ برطانیہ کی کوونٹری یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر میٹ کوورٹرپ کی تحقیق کے مطابق 1960 کی دہائی کے آخر میں برطانیہ میں پیڈرسن انڈیکس یعنی پارٹی بدلنے والے رائے دہندگان کا تناسب صرف 10 فیصد کے قریب تھا جو اب بڑھ کر 40 فیصد کے قریب پہنچ چکا ہے۔ انڈیپنڈنٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں 2015 اور 2017 کے انتخابات میں ووٹروں کی ریکارڈ تعداد نے اپنی پارٹی تبدیل کی اور مستقبل میں یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے۔

رپورٹ کے مطابق مختلف سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں کی انتخابی مہموں کے دوران اکثر لوگ عقلی دلیل کے بجائے خوف اور تحفظ کے جذبات سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ اب ہم رائے دہندگان کے اپنے ووٹ بارے فیصلے کو سمجھنے کے لیے سوشل نیورو سائنس کے طریقے استعمال کر سکتے ہیں۔گذشتہ دہائی میں نیورو سائنس نے ہمیں دماغ کے ان حصوں کی نشاندہی کرنے کے قابل بنایا ہے جو سیاسی اشتہارات دیکھتے وقت فعال ہو جاتے ہیں۔ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتخابی مہموں میں اکثر لوگ عقلی دلیل کے بجائے خوف اور جذبات سے متاثر ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ووٹرز ایسے پیغامات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں جو مثبت پہلوؤں کے بجائے منفی کو اجاگر کرتے ہیں۔

محققین نے دریافت کیا ہے کہ مصنوعات کے بارے میں منفی تصاویر اور بیانات کے نتیجے میں دماغ کے ایک حصے ڈورسولٹرل پریفرنٹل کورٹیکس میں سرگرمی بڑھ جاتی ہے۔ یہ حصہ فیصلہ سازی سے بھی وابستہ ہے۔مثال کے طور پرسوڈ ے کےکسی برانڈ بارےمنفی معلومات اس امکان کو بڑھا دیتی ہیں کہ لوگ اس کے حریف برانڈ کو خریدنا شروع کر دیں۔ تاہم جب یہ تجربات سافٹ ڈرنکس کے بجائے سیاسی جماعتوں کے معاملے میں کیے گئے تو ان کا منفی اثر تین گنا زیادہ تھا۔منفی سیاسی اشتہارات کام کرتے ہیں، اور اب ہمارے پاس اسے ثابت کرنے کے لیے ایف ایم آر آئی سکین ہیں۔سیاست ایک دوبدو جنگ ہے جس کے اندر سیاست دان کوئی کسر نہیں چھوڑتے، اور ہمارے دماغ اس کے مطابق رد عمل دیتے ہیں۔

انسان کے ارتقا کے دوران بقا کی جبلت نے ہمیں اپنے تحفظ کو ترجیح دینا سکھایا ہے، خاص طور پر جب ہمیں خطرہ محسوس ہوتا ہے۔ہمارے خوف اور غصے پر کھیل کر انتخابی نعرے بنانے والے شاید جان بوجھ کر ایسے پیغامات دے رہے ہیں جو دماغ کے ان حصوں کو متحرک کرتے ہیں جن سے انتقام اور غصہ سے منسلک ہوتا ہے، جس میں دماغ کا انٹیریئر سنگولیٹ کارٹیکس (یا اے سی سی) کہلانے والا حصہ بھی شامل ہے، جو دونوں دماغی نصف کرہ کو الگ کرنے والی دراڑ کے اگلے حصے کے اندر گہرائی میں واقع ہے۔یہاں عمر رسیدہ ووٹرخاص طور پر دلچسپ ہیں جو بڑی تعداد میں ووٹ دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی ہے، ہمارے اندر نام نہاد ڈورسولیٹرل پری فرنٹل کارٹیکس فعال ہونے کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ دماغ کا یہ حصہ احتیاط سے وابستہ ہے۔لیکن زیادہ وسیع پیمانے پر، ہر عمر کے لوگوں میں امیگڈلا کو فعال کرنے کا ایک مضبوط رجحان ہے۔

امیگڈلا دماغ کا وہ حصہ ہے جو خوف سے وابستہ ہے۔ ہم صرف شاذ و نادر ہی اخلاقی تشخیص سے وابستہ دماغ کے حصوں کو فعال کرتے ہیں جیساکہ وینٹرومیڈیئل پری فرنٹل کورٹیکس کہلانے والا حصہ۔اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ برطانوی انتخابات میں دو اہم جماعتیں خوف اور احتیاط پر توجہ مرکوز کر رہی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ برطانیہ کے حالیہ انتخابات میں بعض رہنمائوں کی طرف سے بار بار بہت ہی غیر واضح انداز میں خبردار کرتے ہیں کہ دنیا پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔برطانیہ میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو اچھی طرح علم ہے کہ چاہے پنشن پر ہو یا نیوکلیئر ڈیٹرنٹ رائے دہندگان تحفظ فراہم کرنے کے وعدوں پرزیادہ فعال رد عمل دیتے ہیں۔اسی طرح جن سیاسی جماعتوں کے دور حکومت میں لوگوں کو معاشی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے ان کے ووٹ بینک میں کمی آسکتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ برطانیہ میں کنزرویٹو 1992 میں اور لیبر 1979 میں ہار گئے تھے۔ رائے دہندگان حالیہ معاشی کارکردگی کی بنیاد پر بھی اپنی رائے تبدیل کرتے ہیں، بھلے ہی معاشی بحران حکومت کے قابو سے باہر ہو، جیسا کہ سابق قدامت پسند وزیر اعظم ایڈورڈ ہیتھ کے معاملے میں ہوا تھا، جو 1973 میں مشرق وسطیٰ میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے تیل کے بحران کے بعد اقتدار سے محروم ہو گئے تھے۔رپورٹ کے مطابق ایک بار جب کسی حکومت کے ساتھ معاشی خرابیاں جڑ جاتی ہے، مثال کے طور پر اشیا ءگروی رکھنے کی شرح میں اضافہ، روز مرہ ضروریات کی لاگت اور اسی طرح کی دیگر چیزیں، تو معیشت کی بحالی کے باوجود انہیں مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔