اسلام آباد۔25جون (اے پی پی):وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی کشمیری رہنماوں سے ملاقات محض ایک ڈرامہ تھا، کل کی نشست ناکام، بے سود اور بے مقصد تھی،آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا، نشست گفتن، نشستن، برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
جمعہ کو یہاں ِ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ کل نئی دلی میں ایک بیٹھک ہوئی جس میں تقریباً 14 کے قریب کشمیری قائدین کو مدعو کیا گیاتھا،اس اجلاس میں کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق اس ساڑھے تین گھنٹے کے اجلاس کا کوئی ایجنڈا نہیں تھا اوپن فلور بحث ہوئی جبکہ کل کی بیٹھک میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت کو اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے حریت قیادت کا موقف سب کے سامنے ہے وہ ہمیشہ حق خود ارادیت کی بات کرتے ہیں،وہ کہتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلے کا مستقل حل سلامتی کونسل کی قراردادوں کی روشنی میں، کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس سے قبل 22 جون کو بھی ایک نشست ہوئی۔ اس نشست میں موجود کشمیری راہنماوں نے باہمی مشاورت کے بعد ایک موقف اپنایا جبکہ کل کی نشست میں انہوں نے اسی موقف کا اعادہ کیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے اعتراف کر لیا کہ” دلوں کی دوری بھی ہے اور دلی سے دوری بھی ہے” ۔
انہوں نے کہا کہ وہ جو ہندوستان کی جانب سے کہا جا رہا تھا کہ 5 اگست 2019 کے اقدامات سے مقبوضہ کشمیر میں بہت خوشحالی آئے گی،ان بیانات کے بعد یہ سارے دعوے خاک میں مل گئے، میری نظر میں کل کی نشست گفتن، نشستن، برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ میری نظر میں یہ ایک ناٹک تھا کیونکہ پچھلے دو سال میں کشمیریوں پر جو ظلم و جبر کیا گیا اس سے ہندوستان اور وزیر اعظم مودی کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی،اس خفت کو مٹانے کیلئے یہ کوشش کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ پہلے دعویٰ کیا گیا کہ وہاں حالات بالکل معمول پر ہیں۔کل کی نشست میں موجود کشمیریوں نے 5 اگست 2019 کے یک-طرفہ اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کیا۔کشمیری عوام کشمیر کی آئینی حیثیت کی مکمل بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات بھی سنائی دی کہ یہ یک طرفہ اقدامات سپریم کورٹ میں چیلنج ہو چکے ہیں اور ابھی تک ان پر فیصلہ نہیں ہوا۔واضح دکھائی دے رہا ہے کہ کشمیریوں کو ان کے مطالبات پر کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا گیا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ کشمیریوں کو کہا گیا کہ مناسب وقت پر کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی کا فیصلہ کریں گے،یہ ایک مبہم سی بات ہے ۔ کیا ابھی اس مناسب وقت کا انتظار باقی ہے؟ سامنے آنے والے بیانات میں اعتماد کا فقدان دکھائی دیا۔وزیر خارجہ نے کہا کہ میری اطلاعات کے مطابق یہ بھی کہا گیا کہ اگر دلی سرکار کشمیریوں کا اعتماد بحال کرنا چاہتی ہے تو کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خودمختاری کی بحالی لازم ہے ۔
اجلاس کے بعد منظر عام پر آنے والی گفتگو سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ کشمیری لوگ غم و غصے اور کرب کی حالت میں ہیں اور اپنی تضحیک محسوس کر رہے ہیں۔ان کی گفتگو سے یہ تاثر بھی ملا کہ دلی سرکار نے 5 اگست 2019 کے اقدامات کے بعد جو تاثر دیا کہ ان سے خوشحالی آئے گی صورت حال اس کے برعکس نکلی،کشمیریوں کی معیشت تباہ ہو گئی ،ذہنی اذیت کے علاوہ کشمیریوں کو زیادہ مالی نقصان ہوا،ایک شخصیت نے تو یہاں تک کہا کہ 50 فیصد صنعت بند ہو چکی ہیں۔
کشمیر کی قیادت جیلوں میں ہے۔بنیادی حقوق سلب ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ جبر کے تمام ہتھکنڈے آزمائے گیے لیکن کشمیریوں کے حوصلوں کو پسپا نہیں کیا جا سکا۔اس اے پی سی میں کشمیری، سیاسی قیدیوں کی رہائی، ماورائے عدالت قتل کا خاتمہ اور غیر قانونی اور یک-طرفہ اقدامات کی واپسی کا مطالبہ کرتے دکھائی دیئے،یہ مطالبات وہ کشمیری کر رہے ہیں جو گذشتہ ادوار میں دلی کے ساتھ اقتدار میں شریک رہے ہیں
۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میری نظر میں کل کی نشست ناکام، بے سود اور بے مقصد تھی،کشمیری آج بھی اپنی خودمختاری کا مطالبہ کرتے ہیں ،وہ علاقائی تناسب میں تبدیلی کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں اور کشمیری اپنے بچوں کی ملازمتوں کیلئے تحفظ کے طلبگار ہیں۔