لندن ۔ 4 اکتوبر (اے پی پی) بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد لاکھوں افراد دو ماہ سے جاری کرفیو سمیت مختلف پابندیوں اور قدغنوں میں جکڑے ہوئے ہیں، نوجوانوں اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ وادی کشمیر کے مختلف علاقوں میں انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سمیت مواصلاتی نظام کی بھی بندش سے عام شہریوں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ جمعہ کو برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے متعدد سیاست دان اور ذرائع ابلاغ مقبوضہ کشمیر میں کشیدہ حالات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ان پابندیوں پر بھارتی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور متعدد اخباروں اور ٹی وی نیوز چینلز پر خبریں تواتر کے ساتھ آرہی ہیں۔ امریکہ کہ چار اہم سینیٹروں نے کشمیر میں کشیدہ حالات کے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ بھارتی حکومت پر دباو¿ ڈالے، ان میں سینیٹر لنڈزی گراہم بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ٹوئٹر پر بھی کئی اراکین کانگریس کشمیر کے معاملے پر تشویش کا اظہار کرچکے ہیں۔ مینیسوٹا کی مسلمان رکن کانگریس الہان عمر نے چھ اراکین کانگریس کے ساتھ مل کر امریکہ کے پاکستان اور بھارت کے سفیروں کو خطوط ارسال کئے ہیں۔ نیویارک سے منتخب امریکی کانگریس کی خاتون رکن الیگزینڈرا اوکاسیو کورٹیز نے کشمیر کے بارے میں ایک تقریب میں شرکت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں محصور عام شہریوں کے لیے پیغام میں لکھا کہ ہم کشمیر سمیت دنیا بھر میں امن اور انصاف کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں۔ کشمیر میں محصور خاندانوں کے ساتھ ہم سب کی دعائیں اور حمایت ہے۔ کورٹیز نے ٹویٹ کے ذریعے بھی کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کے عزم کا اظہار کیا اور بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ کشمیر میں مواصلاتی نظام کو بحال کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق، جمہوریت، برابری اور سب کے انسانی حقوق کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ اس سے قبل ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ہیوسٹن میں امریکی مسلمانوں کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کشمیر میں حالات پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے اقدامات قابل قبول نہیں ہیں، وہاں گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی آزادی رائے سمیت طبی سہولیات تک رسائی پر بھی پابندی عائد ہے۔