بھارت کے انسانی حقوق کے بدترین ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے تجارتی معاہدہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی پر کیسے پورا اترے گا، لارڈ قربان

اسلام آباد۔7ستمبر (اے پی پی):برطانیہ کے ہاؤس آف لارڈز کے رکن لارڈ قربان حسین نے برطانوی حکومت کے بھارت کے ساتھ مجوزہ تجارتی معاہدے پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا ہے کہ جنوبی ایشیائی ملک کے انسانی حقوق کے بدترین ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ معاہدہ برطانیہ کی خارجہ پالیسی اور بین الاقوامی اصولوں پر کیسے پورا اترے گا۔

برطانوی پارلیمنٹ میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے لارڈ قربان نے کہاکہ معروف بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور جینوسائیڈ واچ نے انسانی حقوق کے حوالہ سے بھارت کے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے اسے دنیا میں انسانی حقوق کے بدترین مجرموں میں شمار کیا ہے ، انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی 2022 کی رپورٹ کے مطابق بھارت کی حکومت نے جموں و کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کے بعد تین سالوں کے دوران بڑی تیزی کے ساتھ انسانی حقوق کی شدیدپامالی کی۔

انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بڑے پیمانے پر سول سوسائٹی اور صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے کارکنوں کومسلسل تفتیش ،من مانی سفری پابندیاں، گھر وں کے اندر نظربندیوں اور ظالمانہ میڈیا پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عدالتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے اپیلوں یا انصاف تک رسائی بھی مسدود کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگرچہ وہ بھارت سمیت دیگر ممالک کے ساتھ برطانیہ کے تجارتی روابط میں بہتری دیکھنے کے خواہاں ہیں تاہم ان کا ہمیشہ یہ یقین رہا ہے کہ ہماری تجارت کو انسانی حقوق سے منسلک ہونا چاہیے۔

ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی طرف سے جموں و کشمیر میں سول سوسائٹی اور میڈیا کو بدترین کریک ڈاؤن کا نشانہ بنایا گیا ہے، جوسخت قوانین، پالیسیوں اور غیر قانونی طریقہ کار کے ذریعہ لوگوں کو دھمکیاں اور خوف و ہراس پیدا کررہی ہے جہاں حکام مقبوضہ جموںو کشمیر کے اندراور اس کے متعلق معلومات کے تمام معتبر، آزاد ذرائع کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے 2022 کی ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی حکام نے 2021 میں سیاسی دبائو اور ہتھکنڈوں کا استعمال کرتے ہوئے کارکنوں، صحافیوں اور ناقدین کے خلاف کریک ڈاؤن کو تیز کیا ،بی جے پی کے غنڈے بے گناہ لوگوں پر حملوں اورپرتشدد واقعات اور دھمکیوں میں ملوث تھے، جب کہ کئی ریاستوں نے اقلیتی برادریوں بالخصوص عیسائیوں، مسلمانوں، دلتوں اور آدیواسیوں کو نشانہ بنانے کی پالیسیوں اورقوانین کی منظوری دی ۔

انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بڑے پیمانے پر سول سوسائٹی، اور صحافیوں، وکلاء اور انسانی حقوق کے محافظوں کو خاص طور پر مسلسل پوچھ گچھ، من مانی سفری پابندیوں، گھر کے اندر نظربندیوں اور جابرانہ میڈیا پالیسیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

عدالتوں اور انسانی حقوق کے اداروں کے ذریعے اپیلوں یا انصاف تک رسائی بھی ختم کر دی گئی ہےلارڈ قربان نے جینوسائیڈ کی 2022 کی رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں ایک ماہر نے روانڈا کے1994ٹسز قبائل کے قتل عام کی برسوں پہلے پیشن گوئی کرتے ہوئے خبردار کیاتھاکہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔

جینوسائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری سٹینٹن نے متنبہ کیا کہ بھارت میں منظم نسل کشی کا امکان ہے ، لارڈ قربان نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رہنے اوراصولوں اور معیارات کو نظر انداز کرنے کی صورت میں برطانوی حکومت کیا کرے گی ۔