بھارت ہندوتوا کے غلبہ تلے اندورنی خلفشار اور تقسیم کے خوف کے ساتھ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منائے گا

241

اسلام آباد۔21جنوری (اے پی پی):نریندر مودی کا بھارت اندورنی خلفشار اور تقسیم کے خوف کے ساتھ 26 جنوری کو یوم جمہوریہ منانے جارہا ہے۔ جیسا کہ بی جے پی کے ہندوتوا نظر یہ میں تمام اداروں اور معاشرے پر غلبہ حاصل کرکے ملک کے سیکولر تشخص کو بری طرح داغ دار کر دیا ہے اور وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا سب سے بڑا ملک بن رہا ہے ۔

بھارت اس دن ہوم جمہوریہ مناتا ہے جب بھارتی دستور موثر طور پر نافذ ہوا تھا ۔ جس کے ذریعے ملک کو سیکولر ریاست قرار دیا گیا تھا تاہم آئینی سیکولر ازم بھارتی معاشرے کو تبدیل کرنے میں ناکام رہا ۔ کیونکہ بھارتی اقلیتوں کے خلاف بی جے پی حکومت کی مخصمانہ کارروائیاں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں ۔ جو غیر ہندوو اقلیتوں کے حوالے سے اس کی متعصبانہ سوچ کی غماز ہیں ۔ برسوں سے بھارتی سیاسی قیادت سیکولر تشخص کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے گمراہ کرتی رہی لیکن یہ روش ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رکھی جاسکتی ۔

برسوں تک ہندوستانی سیاسی قیادت نے سیکولر نقطہ نظر پیش کرکے دنیا کو دھوکہ دیا تاہم یہ دھوکہ ہمیشہ کے لیے جاری نہیں رہ سکا۔اس طرح، ہندوستانی نسلی اور مذہبی اقلیتیں جدید دور کے ہندوستان میں خود کو غیر محفوظ محسوس کرتی ہیں، جہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا ہے کیونکہ ہندو انتہا پسند ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔

ایک تجزیہ کار کے مطابق بھارت کئی ریاستوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، چاہے وہ 1960 اور 70 کی دہائی کی نکسل باڑی تحریک ہو، قبائلی علاقوں میں جاری بدامنی ہو، اقلیتوں کی پسماندگی ہو، ماؤ نوازوں کا عجیب معاملہ ہو، یا کوٹہ سسٹم سے اٹھنے والے تلخ تعلقات ہوں۔ اونچی ذات سے لے کر باقی سماج تک؛ کشمیر، آدیواسی، یا صرف انتہائی غریب، ہندوستانی ریاست اپنے ہی لوگوں کے ساتھ مسلسل تنازعات کا شکار ہے۔

بی جے پی فخر کے ساتھ ہندوتوا کو اپنا نظریہ قرار دیتی ہے اور اس نے نئی دہلی پارلیمنٹ کی عمارت میں گاندھی کی تصویر کے سامنے ویر ساورکر کا ایک بڑا پورٹریٹ لٹکا دیا ہے، جس پر گاندھی کے قتل میں شریک سازش کا الزام لگایا گیا ہے۔تجزیہ کار کے مطابق ہندوستانی آئین میں سیکولر نقطہ نظر ہے جو ریاست اور مذہب کے اِختلاط کو روکتا ہے۔ لیکن آج کا ہندوستان ایک سیکولر ریاست کے علاوہ کچھ بھی ہے۔ آر ایس ایس/ بی جے پی نے ہندوستان کو ایک ہندو راشٹر بنانے کے لیے ایک مشکل سفر شروع کیا ہے جہاں ہندو برتر ہوں گے اور غیر ہندوؤں کی کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ اس کا عملی عکس آج کے ہندوستان میں دیکھا جا سکتا ہے ۔بھارت بین الاقوامی قوانین اور بین الاقوامی اصولوں کی توہین کرتا ہے اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہے۔

ہندوستانی اقلیتیں الگ وطن کی متلاشی ہیں تاکہ وہ پرامن طریقے سے رہ سکیں اور جہاں ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ہو۔آر ایس ایس نے نچلی سطح پر کام کیا، ایسے بچوں کو بھرتی کیا جنہیں مذہب کے لیے لڑنا سکھایا جاتا ہے۔ گروپ نے اقلیتوں کی حامی پالیسیوں پر مسلسل تنقید کی۔آر ایس ایس کی حمایت یافتہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک مندر کی تعمیر کا مطالبہ کیا جہاں بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ یہ مہم 1992 میں ایک ہندو ہجوم کی طرف سے مسجد کو شہید کرنے کے ساتھ ختم ہوئی۔ اس کے ساتھ فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے ۔

فی الحال، ہندو دہشت گرد عیسائیوں کو دھمکیاں دیتے ہیں اور انہیں قتل کرتے ہیں اور ان کی عبادت گاہوں میں کھلم کھلا توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔ عیسائی مخالف محافظ دیہاتوں میں گھس رہے ہیں، گرجا گھروں پر دھاوا بول رہے ہیں، عیسائی لٹریچر کو جلا رہے ہیں، سکولوں پر حملہ کر رہے ہیں اور عبادت گزاروں پر حملہ کر رہے ہیں۔

جس کے نتیجہ میں ہندوستانی عیسائی اپنا عقیدہ چھپانے یا چھپ کر مذہبی رسومات انجام دینے پر مجبور ہیں۔ تقریباً 300 ملین ہندوستانی عیسائی ہندو دہشت گردی کا شکارہیں۔یہاں تک کہ بھارتی ریاستوں کے درمیان بھی امن نہیں ہے ۔ دو ریاستوں آسام اور میزورم کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کی وجہ سے دونوں ریاستوں کی پولیس فورس کے درمیان جھڑپوں میں آسام پولیس کے چھ اہلکار ہلاک ہو گئے۔