اقوام متحدہ۔3ستمبر (اے پی پی):اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ سہہ رخی نقطہ نظراپناتے ہوئے افغانستان میں بھوک کے بحران سے دوچار ایک کروڑ 40 لاکھ افراد کی فوری مدد، جامع حکومت کے فروغ اور ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے طالبان کے ساتھ کام کریں ۔
انہوں نے گزشتہ روز جنیوا سے پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں افغانستان میں مستقبل میں بین الاقوامی کر دار کے لیے پاکستان حکومت کا وژن پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سہ رخی وژن پر کام کرنے کے لیےخطے کے ممالک اور عالمی برادری کے ساتھ رابطے میں ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ انسانی مدد اولین ترجیح ہونی چاہیے اور امریکا اور دیگر ممالک کی جانب سے افغانستان کے اثاثے منجمد کرنا بہت ہی غیر کارآمدہے کیونکہ اس سے طالبان ڈالرز اور فارن ایکسچیج تک رسائی نہ ہونے سے کھانے کی اشیا نہیں خرید سکتے اور تیل درآمدنہیں کر سکتے جس سے ملک میں مہنگائی ہو گی ، قیمتوں میں فوری اضافہ ہو گااور غربت کی شرح میں اضافہ ہو گا جس کے بعد مہاجرین کا بحران جنم لے گا جس سے مغربی ممالک خوف زدہ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ طالبان پر پاکستان کا اثرورسوخ مبالغہ آرائی ہے اگرچہ پاکستان کی اپنی سرزمین پر موجود 30 لاکھ افغان مہاجرین کے لیے کافی حد تک نرم پالیسی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم بہتر طور پر جانتے ہیں کہ آپ افغان شہریوں کو کچھ بھی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے اور میرے خیال میں گزشتہ 40 سال کے تجربے نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ کوئی بھی باہر سے آکر افغان شہریوں کو حکم نہیں دے سکتالہذا بات چیت ، مشاورت جاری ہے لیکن افغانیوں کو قائل کرنا بہت مشکل ہے۔
پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کا کنٹرول ہے اور پاکستان پرامید ہے کہ طالبان کی قیادت جامع حکومت کی تشکیل کی مخلصانہ کوشش کرےگی اور ہمیں امید ہے کہ افغانستان میں ایسی حکومت آئے گی جو ملک میں حقیقی امن لائے گی۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی برادری کو افغانستان کے دوردارز علاقوں میں لوگوں کو معلومات، انسانی حقوق سمیت جدید دور کے فوائد اور اقدا ر بارے شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے جبکہ عالمی برادری افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان کے ساتھ کام کرے ۔