تحفظ کی ذمہ داری کا اصول بھی غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہا ہے، منیر اکرم

95

اقوام متحدہ۔2جولائی (اے پی پی):پاکستان نے کہا ہے کہ تحفظ کی ذمہ داری کا اصول جسے دنیا کے کچھ حصوں میں مداخلت کا جواز پیش کرنے کے لئے استعمال کیا جا چکا ہے ، غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی شہریوں کی نسل کشی کو روکنے میں ناکام رہا ہے۔

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کی روک تھام اور شہریوں کو ان سے تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری کے موضوع پر مباحثے سے خطاب کرتے ہوئے متنبہ کیا کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں تعینات 9 لاکھ بھارتی فوجی اپنی آزادی اور حق ارادیت کے حصول کے لئے کوشاں کشمیریوں کو دبانے کے لیے وحشیانہ مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں۔

پاکستانی مندوب نے یاد دلایا کہ رسپانسیبلٹی ٹو پروٹیکٹ کا تصور تین ستونوں پر قائم ہے اول یہ کہ ہر ریاست کی ذمہ داری کہ وہ اپنی آبادیوں کی حفاظت کرے دوم یہ کہ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ ریاستوں کی اپنی آبادی کے تحفظ میں مدد کرے اور سوم یہ کہ جب کوئی ریاست اس ذمہ داری کی ادائیگی میں واضح طور پر ناکام ہو رہی ہو تو بین الاقوامی برادری اس حوالہ سے اپنی ذمہ داری ادا کرے۔پاکستانی مندوب نے اقوام متحدہ کے خصوصی مشیر برائے تحفظ ذمہ داری پر زور دیا ہے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر اور بھارت کے اندر اس حوالہ سے سنگین صورتحال کا نوٹس لیں۔

پاکستانی سفیر نے مزید کہا کہ عالمی برادری کی ناکامی کی سب سے واضح مثال غزہ میں جاری نسل کشی ہے جہاں آٹھ ماہ سے زائد عرصے میں اسرائیلی فوج کے حملے میں تقریباً 40 ہزار فلسطینی شہید اور 86 ہزار زخمی ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں ۔پاکستانی مندوب نے جنرل اسمبلی کو مزید بتایا کہ جنگ سے تباہ حال غزہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی فراہمی میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں اور جنگ سے متاثرہ غزہ کے مکینوں کو امداد فراہم کرنے والے بین الاقوامی امدادی اداروں کے سینکڑوں کارکنوں کو بھی مار دیا گیا۔ جنگ سے تباہ حال غزہ میں قحط اور وبائی امراض بھی پھیل چکے ہیں ۔

یہ صورت حال اس کی سب سے زیادہ متقاضی ہے کہ بین الاقوامی برادری کو اس نسل کشی اور وہاں ہونے والے جنگی جرائم کو روکنے کے لیے مداخلت کا حق حاصل ہو۔پاکستانی مندوب نے اس صورتحال کو افسوس ناک قرار دیا کہ رسپانسیبلٹی ٹو پروٹیکٹ کو یقینی بنانے کے ذمہ دار ممالک میں سے کچھ سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرار داد کی منظور ی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور کچھ ممالک نے اسرائیل کو اسلحہ اور گولہ بارود کی فراہمی جاری رکھی ہے اور یہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کی طرف سے اسرائیل اور اس کو اسلحہ و گولہ بارود فراہم کرنے والے ممالک کو اس قابل مذمت نسل کشی کو روکنے کے لیے کہے جانے کے باوجو د ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سےسلامتی کونسل میں قرارداد 2735 کی منظوری کے باوجود غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ او آئی سی نے جنگ سے تباہ حال فلسطینیوں کے لیے ایک پروٹیکشن فورس بنانے کی تجویز دی ہے اور سلامتی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اس پر فوری غور کرے۔انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہو چکی ہے کہ جن علاقوں پر غیر ملکی قبضہ ہے وہاں کے لوگ سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ دو سال قبل جینوسائیڈ واچ نے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں نسل کشی کے خطرے سے خبردار کیا تھا جہاں 1989 سے اب تک ایک لاکھ سے زیادہ کشمیری مارے جا چکے ہیں۔ 20 ہزار خواتین کی عصمت دری اور ہزاروں افراد لاپتہ ہیں، اس کے علاوہ 13 ہزار نوجوان لڑکوں کو اغوا کیا گیا اور کئی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ آزادی کے خواہاں تمام رہنما جیلوں میں قید ہیں۔ ماورائے عدالت قتل، اجتماعی سزائیں، ٹارچر اور دیگر جرائم روزمرہ کا معمول اور حقیقت ہیں ۔مسلم اکثریتی علاقے جموں و کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے باہر سے ہندو آباد کاروں کو ڈومیسائل جاری کر کے یہاں آباد کیا جا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کے ہندوتوا کے سرکاری طور پر سپانسر شدہ نظریہ سے بھی اقلیتوں کے لئے سنگین خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ بھارت میں اقلیتوں خاص طور سے مسلمانوں کو منظم، سرکاری طور پر منظور شدہ، امتیازی سلوک، تشدد اور جبر کا سامنا ہے۔گزشتہ ہفتے بی جے پی کے ایک رہنما نے دو لاکھ مسلمانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی ۔جینوسائیڈ واچ کے سربراہ نے بھی خبردار کیا ہے کہ ہندوستان کے 20 کروڑ مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کا امکان بڑھ رہا ہے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اس صورتحال میں عالمی برادری جموں و کشمیر میں نسل کشی کو روکنے کے لئے’’ رسپانسیبلٹی ٹو پروٹیکٹ ‘‘کے اصول پر عمل کرنا چاہیے۔