ترقی یافتہ ممالک کا ترقی پذیر ممالک کو نشانہ بنانے کے لئے اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال

162
ترقی یافتہ ممالک کا ترقی پذیر ممالک کو نشانہ بنانے کے لئے اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال
India Flag Animation (Close-up)

اسلام آباد۔2نومبر (اے پی پی):سیاسی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ دنیا جب صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمے کا عالمی دن منا رہی ہےتو ترقی یافتہ مغربی ممالک کو اپنے مفادات کے تحفظ اور ترقی پذیر ممالک کو نشانہ بنانے کے لئے آزادی اظہار کی اصطلاح کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کا عہد کرنا چاہئے،

مغربی میڈیا کو اپنے اپنے ممالک سے باہر ’’آزادی صحافت کے خطرات‘‘ کو اجاگر کرکے اپنے مفادات کا حصول بند کرنا چاہئے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق اس حوالے سے مخصوص سوچ اور تفاوت اپنے مقاصد کے لئے آزادی اظہار کی تعریف کو بدلنے کا باعث بنتی ہے۔

مثال کے طور پر کم ترقی یافتہ ممالک میں ریاستی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا یا ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنا ترقی یافتہ ممالک میں اظہار رائے کی آزادی قرار دیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسا کرنا جرم ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق امریکی حکومت نے حال ہی میں وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کی حوالگی کو روکنے کے برطانوی جج کے فیصلے کے خلاف اپیل لانچ کی ۔

واشنگٹن جو لین اسانج کو فوجی رازوں کی اشاعت کے لئے مقدمہ کا سامنا کرنے کے لئے امریکہ لانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ آزادی اظہار کے حق کی خلاف ورزی ہے ۔ 5 اپریل 2010 کو وکی لیکس نے ایک لیک ویڈیو جاری کی جس میں امریکی ہیلی کاپٹر کو عراق کے شہر بغداد میں فضائی حملہ کرتے دکھایا گیا جس میں رائٹرز نیوز ایجنسی کے عملے کے 2 افراد سمیت عام شہری ہلاک ہوئے۔

اکتوبر 2010 میں وکی لیکس نے 4 لاکھ خفیہ فوجی فائلیں جاری کیں جن میں عراق جنگ کی تاریخ بیان کی گئی تھی۔ اگلے ماہ اس نے ہزاروں امریکی سفارتی کیبلز جاری کیں جن میں غیر ملکی رہنماؤں کے واضح خیالات اور سکیورٹی خطرات کے دو ٹوک اندازے شامل تھے۔

ڈی ڈبلیو میں شائع ہونے والی ایک حالیہ رائے عامہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ جرمنی میں کچھ قوانین جرمنی کی جمہوری اقدار کو برقرار رکھنے میں مدد دیتے ہیں تاہم حکومت کی جانب سےکارکنوں اور صحافیوں کو ممکنہ طور پر سکیورٹی کے حوالہ سے انہی قوانین کے ذریعے سختی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حال ہی میں یورپی میڈیا میں مسلم ممالک کے خلاف بالعموم اور پاکستان کے خلاف خاص طور پر ’’آزادی اظہار‘‘ اور صحافیوں پر قدغن لگانے سے متعلق بڑھتا ہوا رجحان دیکھا گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو جیسا میڈیا گروپ منحرفین کے ہاتھوں میں کھیل رہا ہے اور جھوٹی رپورٹیں نمایاں کر رہا ہے۔انسانی حقوق کے آفاقی اعلامیہ کے آرٹیکل 19 کے مطابق "ہر کسی کو آزادی رائے اور اظہار کا حق حاصل ہے۔

اس حق میں بغیر کسی مداخلت کے رائے رکھنے کی آزادی اور کسی بھی میڈیا کے ذریعے اور سرحدوں سے قطع نظر معلومات اور خیالات حاصل کرنےاور فراہم کرنے کی آزادی شامل ہے تاہم دنیا کا ہر ملک اگرچہ آزادی اظہار کی ضمانت دیتا ہے لیکن قطعی نہیں،

اس لئے اس بین الاقوامی دن کو منانے کے دوران بین الاقوامی برادری/تنظیموں کو ہر ریاست کے لیے آزادی اظہار کے یکساں معیارات کا اطلاق کرنا چاہئے جس سے صحافیوں کے استثنیٰ کے اشاریوں کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی اور دنیا کو تمام صحافیوں کے لئے محفوظ بنایا جائے گا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق 2 نومبر کو جب کہ دنیا صحافیوں کے خلاف جرائم سے استثنیٰ کے خاتمہ کا عہد کرے گی، اسے یہ عزم بھی کرنا چاہئے کہ میڈیا کو ان سرمایہ کاروں کی ملکیت میں محدود نہیں کیا جائے گا جو انہیں طاقت کے ترجمان کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔

اس پر توجہ دینی چاہئے کہ آزاد ی اظہار عظیم طاقتوں کے ثقافتی بندھنوں میں سے ایک رہی ہےجو کہ کچھ کے لئے پیدائشی حق اور دوسروں کے لئے ظالمانہ مذاق ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہر جگہ اظہار رائے کی آزادی کی اپنی حدود ہیں مثال کے طور پر جرمنی میں نیشنل سوشلزم پر آئینی طور پر پابندی ہے کیونکہ یہ ریاست کے مفاد کے ساتھ موزوں نہیں ہے۔ دنیا کی ہر ریاست کو اپنے دائرہ اختیار میں اس اصول کو لاگو کرنے کی اجازت ہونی چاہئے۔ اگر ہولوکاسٹ کے بارے میں بات کرنا،

سواستیکا کی نمائش یا نازیوں کے مظالم کو معمولی قرار دینا ممنوع یا غیر قانونی اور قابل سزا جرم تھا تو دیگر ریاستی حکومتوں کو بھی اپنے قوانین کے مطابق اپنی قومی سلامتی اور سالمیت کے تحفظ کے لئے احترام دیا جانا چاہئے۔ مغربی میڈیا کو اپنے اپنے ممالک سے باہر ’’آزادی صحافت کے خطرات‘‘ کو اجاگر کرکے اپنے مفادات کا حصول بند کرنا چاہئے۔