ترکی کااپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلا نے کا اعلان ، ترک صدر اردگان کی نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی

111
ترکی کااپنے سفیر کو اسرائیل سے واپس بلا نے کا اعلان ، ترک صدر اردگان کی نیتن یاہو پر کڑی نکتہ چینی

استنبول ۔4نومبر (اے پی پی):ترکی نے ہفتے کے روز کہا ہے کہ وہ غزہ میں خونریزی پر احتجاج کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا رہا ہے اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے رابطے منقطع کر رہا ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکی کے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلانے کے اعلان سے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کا ترکی کا دورہ مشکل ثابت ہوگا۔ فلسطین کا اتحادی ترکی گذشتہ ماہ اسرائیل اور حماس کی جنگ کے آغاز تک اسرائیل کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلقات کو بتدریج ٹھیک کر رہا تھاتاہم اس نے اسرائیل اور اس کے مغربی حامیوں سمیت خاص طور پر امریکہ کے خلاف اپنا لہجہ سخت کرنا شروع کر دیا کیونکہ لڑائی میں اضافہ ہوا اور فلسطینی شہریوں میں ہلاکتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

ترک وزارت خارجہ نے کہا کہ سفیر ساکر اوزکان تورونلر کو اسرائیل سے غزہ میں شہریوں کے خلاف اسرائیل کے مسلسل حملوں اور جنگ بندی قبول کرنے سے انکار کی وجہ سے غزہ میں انسانی المیہ کے پیش نظر” مشاورت کے لئے واپس بلایا جا رہاہے ۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق اسرائیلی فورسز نے غزہ کے سب سے بڑے شہر کو گھیرے میں لے لیا ہے، اور7 اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے جواب میں حماس کوکچلنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔

حکام کا کہنا ہے کہ تقریبا 1,400 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری ہیں اور تقریبا 240 افراد کو یرغمال بنا لیا گیا ہے ۔ غزہ میں حماس کے زیرانتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے حملوں اور زمینی مہم میں شدت سے اب تک تقریبا 9,500 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے صحافیوں کو بتایا کہ وہ غزہ کی پٹی میں شہریوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کے لیے ذاتی طور پر نیتن یاہو کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ ترک میڈیا نے اردگان کے حوالے سے بتایا کہ "نیتن یاہو اب کوئی ایسا نہیں رہا جس سے ہم بات کر سکیں لہذٰاہم نے ان سے رابطہ ختم کر دیا ہے۔

اسرائیل نے اس سے قبل حفاظتی احتیاط کے طور پر ترکی اور دیگر علاقائی ممالک سے اپنے تمام سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔ اسرائیل کی وزارت خارجہ نے گذشتہ ہفتے کے آخر میں کہا تھا کہ وہترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کا "دوبارہ جائزہ” لے رہیہے جس کی وجہ اسرائیل اور حماس جنگ کے بارے میں ترکی کے بڑھتے ہوئے سخت بیانات ہیں ۔ اردگان نے ہفتے کے روز کہا کہ ترکی، اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات مکمل طور پر ختم نہیں کر رہا ہے۔

اردگان نے کہا کہ تعلقات کو خاص طور پر بین الاقوامی سفارت کاری میں مکمل طور پر منقطع کرنا ممکن نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ایم آئی ٹی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ ابراہیم قالن جنگ کے خاتمے کی کوشش اور ثالثی کے لیے ترکی کی کوششوں کی قیادت کر ر ہےہیں۔اردگان نے کہا کہ ابراہیم قالن اسرائیلی فریق سے بات کر رہے ہیں۔ یقیناً وہ فلسطین اور حماس کے ساتھ بھی بات چیت کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیتن یاہوبنیادی طور پر تشدد کے ذمہ دار ہیں اوروہ اسرائیلی اپنے ہی شہریوں کی حمایت کھو چکے ہیں۔اردگان نے کہا کہ اسے کیا کرنے کی ضرورت ہے ایک قدم پیچھے ہٹنا اور اسے روکنا ہے۔ترک رہنما نے جنگ کے پہلے دنوں میں زیادہ محتاط لہجہ اختیار کیا تھا۔تاہم انہوں نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں استنبول میں ایک بڑی ریلی کی قیادت کی جس کے دوران انہوں نے اسرائیلی حکومت پر ایک "جنگی مجرم” جیسا سلوک کرنے اور فلسطینیوں کو "مٹانے” کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔

دریں اثناء امریکی وزیر خارجہ بلنکن اپنے مشرق وسطی کے دورے کے ایک حصے کے طور پر اتوار کو ا ترکی کا دو روزہ دورہ شروع کریں گے۔ اعلیٰ امریکی سفارت کار ایک روز قبل اسرائیل کا دورہ کرنے کے بعد ہفتے کے روز اردن کے دارالحکومت عمان میں عرب ہم منصبوں سے ملاقات کر رہے تھے۔