تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئینی ترمیم پیش کرنے کے خواہاں ہیں ، حکومت آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے، بلاول بھٹو زرداری

109

اسلام آباد۔11اکتوبر (اے پی پی):چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئینی ترمیم پیش کرنے کے خواہاں ہیں ، حکومت آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کوپارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چیمبر میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے مجھے یہ ذمہ داری ایک مہینے سے دے رکھی ہے کہ عدالتی اصلاحات کے متعلق آئینی ترامیم پر اتفاق رائے ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ صرف پیپلزپارٹی کی حتمی دستاویز سامنے آئی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے اب تک باقاعدہ طور پر مسودہ نہیں ملا ہے، پیپلز پارٹی کا مسودہ کامران مرتضی کے پاس ایک ہفتے سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے اور پھر بھی اتفاق رائے چاہ رہی تویہ خوش آئندہے، حکومت کب تک اپنا ٹائم فریم چھوڑ کر ہمیں موقع دے گی، اس لیے میری پوری کوشش ہے کہ مسلسل بات چیت کرکے حکومت کے سامنے سیاسی مشاورت سے متفقہ مسودہ پیش کرسکوں ۔ حکومت آئین اور قانون کے مطابق کام کرنا چاہتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ آئینی ترامیم اتفاق رائے سے کی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے دئیے گئے مسودے میں آرٹیکل 175-A میں آئینی عدالت کا قیام شامل ہے اور آرٹیکل 175 اے، بی ، ڈی، ای ، ایف میں ترامیم کی تجویز بھی شامل ہے۔

حکومت کے مسودہ میں واضح نکات سامنے آئے ہیں۔ عدالتی اصلاحات کے علاوہ جو نکات ہیں وہ حکومت سے کہا ہے کہ جلد شیئر کرے۔ یقینا حکومت کے اپنے کچھ منشور کے مطابق نکات بھی ہوں گے۔ مسلم لیگ ن کا حق ہے کہ میثاق جمہوریت کے مطابق آئینی ترمیم لاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنی خواہشات کو آئینی ترمیم کے ساتھ نہیں جوڑا اور ہم نے آئینی عدالت اور جوڈیشل ریفارمز کو سامنے رکھا ہے۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے صحافیوں کے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کا شکر گزار ہوں کہ ہمارے اصرار پراتفاق کیا کہ سب سیاسی جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہئے ، ہمیں حکومت نے مکمل وقت دیا اور ستمبر سے ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر مکمل اتفاق رائے نہ ہوا تو حکومت کب تک انتظار کرے گی ۔ پارلیمانی کمیٹی کا تفصیلی اجلاس ہوا ہے جس میں تمام جماعتوں نے رائے دی۔ پیپلز پارٹی نے اپنے اصل مسودہ کی تجاویز جس میں آئینی عدالت سے متعلق امور ہیں وہ کمیٹی میں پیش کیا ۔ ہم نے یہ مسودہ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں کے سامنے پیش کیا ۔ اس کے علاوہ حکومت نے جو وکلاءسے مشاورت کی اس کے نکات بھی اس کمیٹی میں پیش ہوئے ۔

وزیر قانون نے وکلا کیساتھ ایک تفصیلی مشاورت کی اورجو وکلاء کی تجاویز سامنے آئیں وہ بھی پیش کی گئیں ۔ اپوزیشن جماعتوں نے بھی اپنی رائے پیش کی۔ مولانا فضل الرحمان نے اپنا موقف دہرایا کہ پیپلز پارٹی کیساتھ اتفاق رائے سے مسودہ بنانا چاہتے ہیں ۔ ہم نے بھی اس بات کو دہرایا کہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتفاق رائے کرکے آئینی ترمیم ہو ۔ کوشش بھی یہی تھی آج بھی یہی بات کہتے ہیں اور کل بھی یہی کوشش ہوگی کہ اتفاق رائے پیدا کیا جا سکے۔ ہم صرف مخالفت برائے مخالفت نہیں کرنا چاہتے ۔

چیئرمین بلاول نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت بہت پر اعتماد ہے کہ ان کے پاس نمبر موجود ہیں ۔ وزیر قانون نے بتایا ہے کہ ان کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے مگر ہم تمام سیاسی جماعتوں کی اس معاملے اتفاق رائے کیلئے یہاں بیٹھے ہیں ۔ میں ان کی بات کو سراہتا ہوں مگر گزشتہ ماہ سے اب تک اتفاق رائے کیلئے ہی کوشش ہورہی ہے ۔ ایسی صورت میں جب ایس سی او ہورہا ہے،

اس صورت میں، میں بھرپور کوشش کررہا ہوں کہ اتفاق رائے قائم ہو ۔ اگر اتفاق رائے میں وقت لگتا ہے تو شاید حکومت اپنے اس آئینی قانونی حق کو استعمال کرے اور اسے پیش کرے ، مگر ہماری پوری کوشش ہے اور ہم نے ہمیشہ یہی موقف رکھا کہ ایک مکمل اتفاق رائے قائم ہو۔