22.1 C
Islamabad
جمعرات, اپریل 3, 2025
ہومخصوصی فیچرزتھرپارکر کا نمک کدہ : اربوں کی سوداگری، مزدوری دو روپے

تھرپارکر کا نمک کدہ : اربوں کی سوداگری، مزدوری دو روپے

- Advertisement -

تحریر: کریم دینو راہموں
نگران ایڈیٹر: شوکت چانڈیو
ترجمہ۔ سرفراز کندھر
سندھ کے سب سے بڑے ضلع تھرپارکر کو بقول مقامی باشندوں پسماندگی،غربت اور پینے کے صاف پانی، صحت و تعلم سمیت بنیادی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا ہے حالانکہ قدرت نے اس علاقے کو کوئلے، گرینائٹ اور نمک کے بیش بہا ذخائر سے نوازا ہے جس سے بھرپور استفادہ کرکے پسماندگی کو خوشحالی میں بدلا جاسکتا ہے اور مقامی لوگوں کی زندگیوں میں نمایاں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ تھرپارکر میں کوئلے کی طرح نمک کے بڑے ذخائر موجود ہیں‘ سینکڑوں ایکڑ پر محیط نمک کے ذخائر سے روزانہ ہزاروں ٹن نمک اندرون و بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے‘ ملک کو قیمتی غیرملکی زرمبادلہ فراہم کرنے والے نمک کے کاروبار کو صنعت کا درجہ نہ ملنے کے باعث یہ ذخائر عوام کیلئے خاطر خواہ سودمند ثابت نہیں ہو سکے ہیں‘ مناسب مواصلاتی رابطہ نہ ہونے کے باعث مزدور اپنی حقیقی اجرت سے بھی لاعلم ہیں اور چند روپوں کی خاطر مزدوری کرنے پر مجبور ہیں ۔ اے پی پی کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں ایک سو سے زائد نمک کی کانیں موجود ہیں۔ جن میں سارن‘ سدہوئی‘ ڈاگو‘ گبھن‘ ھتھنی‘ ٹوبھو‘ ھتہرائی‘ گجیواری‘ گڑھو‘ سینگالو‘ جخنور‘ ٹیپاریو‘ موخائی‘ دونھائی‘ کونرل اور دوسری نمک کی کانیں شامل ہیں جہاں پر نمک کے بڑے ذخائر موجود ہیں اور روزانہ ہزاروں ٹن نمک پاکستان سمیت بیرون ملک بھیجا جاتا ہے‘ نمک کی ان کانوں پر ہزاروں کی تعداد میں تھر سمیت ملک کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مزدور کام کر رہے ہیں‘ ماہرین کے مطابق تھرپارکر میں موجود کانوں کا نمک بہترین معیار کا ہے جو دنیا کے مختلف ممالک کو برآمد ہو رہا ہے‘ یہ نمک معیاری ہونے کے باعث تمام دنیا میں بہت مشہور ہے‘ ماہرین کے مطابق تھرپارکر میں بارشیں ہونے کے بعد ان نمک کی کانوں میں پانی جمع ہوتا ہے اور کچھ وقت کے بعد وہ قدرتی نمک میں تبدیل ہوجاتا ہے‘ نملک کی کانوں کی زمین سیم زدہ ہونے کے باعث پانی نمک میں تبدیل ہوجاتا ہے.

نمک کے کانوں کی لیز حکومت سندھ کا محکمہ مائنز اور منرل جاری کرتا ہے‘ لیز لینے والے ہر سال اراضی کے لحاظ سے مقرر کردہ رائلٹی کی رقم محکمہ مائنز اور منرل کے پاس جمع کراتے ہیں ۔ براعظم ایشیا کی مشہور نمک کان سارن کا سن بھی تھر میں موجود ہے۔ یہ کان تحصیل ڈیپلو سے مغرب کی طرف 20کلومیٹر کے فاصلے پر سارن گا¶ں میں ہے‘ جہاں بہت سالوں سے نمک نکل رہا ہے‘ تھر میں سب سے پہلے نمک سارن کے سن سے نکلا اور وہ تھر کی قدیم کانوں میں سے ہے‘ جو 100ایکڑ پر محیط ہے‘ سارن کے سن کا نمک صاف اور شفاف ہونے اور اعلی معیار کا ہونے کے باعث مشہور ہے‘ جس کی ملکی سطح پر بہت مانگ ہے‘ پورے ملک کے تاجر اور فیکٹری مالکان زیادہ تر اس نمک کی مانگ کرتے ہیں۔

- Advertisement -

تھرپارکر میں موکھائی نام سے نمک کی کان 250 ایکڑ‘ ڈاگو 150ایکڑ‘ ڈاگو ٹو 180 ایکڑ‘ ھتھنی 100 ایکڑ‘ ڈابھرو 150 ایکڑ پر محیط ہے۔ ماہرین معدنیات کے مطابق تھرپارکر کا نمک ملک کی کھاد اور چمڑے کی فیکٹریوں سمیت دنیا کے سرد ممالک کو بڑے مقدار میں برآمد ہو رہا ہے‘ تھر کا نمک کھاد بنانے میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ پاکستان میں موجودکھاد کی مشہور اینگروکمپنی بھی نمک تھر سے خرید کرتی ہے‘ اس کے علاوہ پورے ملک میں کھاد بنانے والی کمپنیوں کو بھی نمک تھر سے فراہم کیا جاتا ہے جبکہ کھانے پینے کیلئے بھی نمک مختلف شہروں میں بڑے مقدار میں دکانوں پر بھی فروخت ہوتا ہے‘ نمک جانوروں کی کھالوں کو بھی لگانے کے کام آتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے سرد ممالک برف کو پگھلانے کیلئے تھر کا نمک استعمال کرتے ہیں کیونکہ ان کو یہ نمک سستا مل رہا ہے۔

زرعی یونیورسٹی سندھ ٹنڈوجام کے زرعی تعلیم اور توسیع ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر محمد اسماعیل کنبھر نے اے پی پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لیموں کی ا±گائی کیلئے سوڈیم کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کھاد کے ساتھ نمک کو ملاکر استعمال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی یونیورسٹی تھرپارکر کی کیمپس اور تھر فا¶نڈیشن والوں کو بھی اس حوالے سے تحقیقات کرنی چاہیئے۔ ڈاکٹر کنبھر نے کہا کہ نمک نہ صرف کھانے بلکہ دواﺅں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ تھرپارکر میں نمک کے بہت بڑے ذخائر ہیں جن کے بہتر استعمال کیلئے حکومت کو کوششیں کرنی چاہئیں۔ نمک کو اینگرو سمیت کھاد کی بڑی فیکٹریاں استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اچھری تھر میں بھی نمک کی کانیں موجود ہیں‘ ان کو صنعت کا درجہ دلانا چاہیئے۔ زرعی یونیورسٹی کے سوائل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر عنایت اللہ راجپر نے کہا کہ نمک کھاد بنانے کیلئے استعمال نہیں ہو سکتا‘ ہوسکتا ہے کہ تھوڑا بہت استعمال ہوتا ہو لیکن نمک زمین کیلئے خطرناک ہے بلکہ پوٹاش کی تیاری میں ہوسکتا ہے کہ اس کا کچھ مقدار استعمال ہوتا ہو۔ سوڈیم کلورائیڈ میں بھی نمک کا استعمال ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرد ممالک کو نمک اس لیے بڑے تعداد میں جاتا ہے کیونکہ وہاں پر نمک کی قلت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری پاس نمک کا زیادہ استعمال کھانے پینے کے حوالے سے ہے‘ جبکہ زراعت کے حوالے سے اس کا اتنا استعمال نہیں ہے۔

نمک کی کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں اور تاجروںکا کہنا ہے کہ تھر میں موجود بڑی مقدار میں نمک کے کاروبار کو صنعت کا درجہ نہ ملنے کے باعث نمک سستے نرخوں پر فروخت ہو رہا ہے اور مزدوروں کی مزدوری نہ ہونے کے برابر ہے‘ صنعت کا درجہ نہ ہونے کے باعث اربوں روپے کے کاروبار پر حکومت کو رائلٹی نہ ہونے کے برابر مل رہی ہے جس سے حکومت سمیت نمک نکالنے والے مزدوروں سے لیکر نمک لیکر فروخت کرنے والے تاجروں کو مناسب نرخ نہیں مل رہے۔ اے پی پی سے بات کرتے ہوئے نمک کی کانوں پر مزدوری کرنے والے عمران علی نے کہا کہ یہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات میسر نہیں، ان کو مزدوری بھی نہیں دی جاتی، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سندھ سے مطالبہ ہے کہ ضلعی تھرپارکر میں نمک کی کانوں کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔

تھرپارکر کی نمک کانوں پر کام کرنے والے ان مزدوروں کا کہنا ہے کہ صحت کی مناسب سہولیات نہ ہونے کےجعمو سومرو نے کہا کہ ہمیں محنت کا پھل نہیں ملتا، مزدو محمد ایوب، عرفان علی، محمد اشرف، عارب سومرو‘ یامین‘ خمیسو‘ موسی راہموں‘ جمعو‘ کرشن کولھی‘ جگتو اور والو کولھی نے بتایا کہ ہمیں 50 کلو کی بوری کے صرف سات سے آٹھ روپے ملتے ہیں‘ ایک مزدور روزانہ 40سے 50نمک کی بوریاں مشکل سے نکالتا ہے جن کے صرف 400 روپے ملتے ہیں جبکہ نمک کان سے بوریاں ٹرالر میں لوڈ کرنے کی فی بوری پر دو سے اڑھائی روپے مزدوری دی جاتی ہے۔ نمک کے تاجروں کا کہنا ہے کہ نمک کو صنعت کا درجہ مل جائے تو سب سے زیادہ فائدہ مزدوروں کو ہوگا۔  باعث وہ کئی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں‘ انہیں جلد کی بیماریاں لاحق ہوجاتی ہیں‘ مزدوروں کے مطابق ان کے ہاتھ اور پا¶ں نمک کے باعث زخمی ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ان کے زخم ناسور بن جاتے ہیں جس کے باعث کچھ عرصے کے بعد یہ مزدور کام کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ نمک کی کانوں پر مزدوری کرنے والے مزدوروں نے کہا کہ تھرپارکر میں ایک سو سے زائد نمک کی کانوں پر کہیں بھی صحت کی سہولت موجود نہیں ہیں اور نہ ہی محکمہ لیبر کی جانب سے کوئی ہسپتال قائم کیا گیا ہے۔ نمک کے کان پر مزدوری کرنے والے مزدوروں کے بچوں کیلئے تعلیم بھی مسئلہ ہے اور ان کے بچوں کو تعلیم دلانے کیلئے حکومت کی جانب سے کوئی بھی سکول قائم نہیں کیا گیا ہے جس کے باعث ان کے بچے بچپن سے ہی نمک نکالنے کے کام میں لگ جاتے ہیں اور ان کیلئے زندگی میں آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں۔

بڑی تعداد میں مزدروں کے بیمار ہونے کے باعث کچھ عرصے سے اب ٹریکٹروں کے ذریعے بھی نمک اکٹھا کیا جاتا ہے‘ اس کے علاوہ نمک اٹھانے کیلئے کرین مشینوں اور ٹریکٹر ٹرالی کا بھی استعمال کیا جاتا ہے‘ جس سے نمک کو ایک جگہ پر بڑے تعداد میں اکٹھا کرکے صاف کیا جاتا ہے‘ صاف ہونے کے بعد نمک کو بوریوں میں ڈال کر ٹرالروں کے ذریعے بھیجا جاتا ہے۔

مزدوروں اور مقامی باشندوںکا کہنا ہے کہ تھرپارکر میں نمک کی فیکٹریاں لگانے سے تھر سے بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے‘ تھر کے نمک کی کانوں سے نکلنے والے نمک کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ فلٹر کرنے اور پیکنگ کرنے کی فیکٹریاں تھر میں لگانے سے تھر کے ہزاروں بے روزگار لوگ روزگار سے لگ سکتے ہیں۔ اس وقت تھر میں کراچی کی ایک کمپنی کے دو سے لیکر تین ایسے چھوٹے پلانٹ لگے ہوئے ہیں جہاں نمک نکالنے کے بعد صاف کرنے اور پیسائی کرنے تک کا کام کیا جاتا ہے‘ ان پلانٹس پر سویں مزدور کام کر رہے ہیں جو 15 ہزار سے 20 ہزار ماہانہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ نمک کے کاروبار کو صنعت کا درجہ دے دیا جائے اور ان کانوں سے نمک کو صاف اور فلٹر کرنے کیلئے تھر میں ہی فیکٹریاں لگا دی جائیں تو علاقہ کے ہزاروں خاندان خوشحال زندگی بسر کرسکتے ہیں اور اس پسماندہ ضلع میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوسکتا ہے۔

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=209064

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں