تھر کی سوغات اور خیمہ منڈی

رپورٹ:کریم ڈنوراہموں

ترجمہ: سرفراز کندھ

تھر کے باسیوں نے حالیہ بارشوں کے بعد درپیش مشکلات اور سہولیات کے فقدان کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے خیمہ بستیوں کی طرح پہلی بارخیمہ منڈی قائم کرکے علاقے کی روایتی سبزیاں اورپھل فروخت کرنا شروع کردیئے ہیںجو ملک میں اپنی طرز کی منفرد منڈی ہے۔تھر کے راستوں پر بجلی‘ گیس اور عمارات کے بغیر قائم یہ خیمہ منڈی سیاحوں کی توجہ اور خریداری کا اہم مرکز بنی ہوئی ہے۔ تھر کی سب سے بڑی خیمہ مارکیٹ مٹھی شہر کے نزد نﺅ کوٹ بدین بائی پاس روڈ پھانگاریو سٹاپ پر قائم کی گئی ہے۔ مارکیٹ میں درجنوں عارضی دکانیں موجود ہیں‘ جہاں سے روزانہ تھر گھومنے والے سیاح اپنے لیے مقامی روایتی سبزیاں کھمبی‘ للر‘ چبھڑ‘ گدریون‘ چانھیون‘ ریبھڑیوں‘ میھا‘ پپون‘ کوڈھیر اور گوار خرید کر لے جاتے ہیں۔ اس خیمہ منڈی کے علاوہ ایک ایک خیمے کی دکان بھی تھر میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتی ہے۔ تھر کی یہ سبزیاں اور پھل سیاح اوریہاںکے باسی بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور سندھ کے علاقوں سمیت ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے رشتہ داروں کو سوغات کے طور پر بھی بھیجتے ہیں۔ تھر میں بارش کے بعد سبزیوں کا ہونا مقامی لوگوں کیلئے روزگار کمانے کا بڑا ذریعہ ہے ،یہ سبزیاں مہنگے داموں بکتی ہیں اور اس سے ہر طبقے کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مالوند لوگ کھمبی‘ مریئڑو‘ للر‘ چبھڑ‘ گدریون‘ چانھیون‘ ریبھریوں“ میھا‘ پپون‘ کوڈھیر اور گوار چ±ن کردکانوں پر فروخت کرتے ہیں جہاں سے دکاندار ان سبزیوں کو سیاحوں کو فروخت کرتے ہیں۔ ابتداءمیں یہ قدرتی سبزیاں پانچ سے سات سو روپے فی کلو فروخت ہوتی ہیں تاہم بعد ازاں یہ دو سو سے تین سو روپے میں فروخت ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری سبزیاں بھی سو سے دو سو روپے فی کلو فروخت ہوتی ہیں۔ تھر میں بارش کے بعد ہونے والی سبزیاں تھر کے لوگ پورا سال سنبھال کر رکھتے ہیں اور مشکل وقت میں استعمال کرتے ہیں۔

تھر میں پیدا ہونے والی یہ سبزیاں غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ عموماً لوگ اس کا بیج نہیں بوتے بلکہ یہ بارش کے بعد خود بخود اگتی ہیں۔


تھرکی معروف کھمبھیاں صحرائی میدان میں پیدا ہوتی ہیں، بارش کے بعد جب بادل چھٹ جاتے ہیں تو صبح سویرے سورج کی کرنیں جب ریتلے میدان پر پڑتی ہیں تو یہ کھمبھیاں پھوٹتی ہیں، یہ صحرا میں جگہ جگہ پائی جاتی ہیں، بعض کھمبھیاں زہریلی بھی ہوتی ہیں لہٰذا اسے کھانے کیلئے استعمال کرتے ہوئے نہایت احتیاط برتی جاتی ہے۔ تھر کے لوگ اس کو سبزی کے طور پر پکاتے ہیں اور اس کا ذائقہ مرغی کے شوربے کی طرح لذیذ ہوتا ہے، لوگ اسے نہایت رغبت سے کھاتے ہیں۔

مریڑو اور للر بھی بارش کے بعد پیدا ہوتے ہےں، ان کو تھر کے لوگ خشک سبزی اور شوربے کے طور پر بھی پکاتے ہیں، یہ نہایت زود ہضم ہوتی ہے ۔ صحرا میں اگنے والی یہ سبزیاں سرسوں کے ساگ کی طرح پکائی جاتی ہیں اور ان کا ذائقہ سرسوں کے ساگ جیسا ہوتا ہے۔


پپوں کا پھل اس وقت اگتا ہے جب بارش خوب برس چکی ہوتی ہے۔ یہ نہایت مشہور اور ذائقہ دار پھل ہے، اس کا ذائقہ کھٹہ ہوتا ہے اور یہ سورج چڑھنے سے رفتہ رفتہ اپنا ذائقہ تبدیل کرتا ہے، صبح اس کا ذائقہ کھٹہ ہوتا ہے جو وقت گزرنے سے کڑوہ ہوتا جاتا ہے اور یہ میوہ صرف صبح کے وقت ہی ذائقہ دار ہوتا ہے۔ لوگ پپوں کو بہت شوق سے کھاتے ہیں۔
کوڈھیر کا پھل آلو کی طرح زمین کے اندر پیدا ہوتا ہے اور لوگ اس کی بیل کو دیکھ کر زمین سے نکالتے ہیں۔ کوڈھیر بھی ذائقہ دار پھل ہے اور اس کا ذائقہ آلو سے ملتا جلتا ہے۔ یہ صرف کھایا جاتا ہے پکایا نہیں جاتا۔
بھرٹ گندم کی طرح کا پودا ہوتا ہے، اس کا دانہ پیس کر آٹا بنانے کے بعد روٹیاں پکا کر لوگ قحط کے دنوں میں استعمال کیا کرتے ہیں۔


چبھڑ اور گدریوں چھوٹے خربوزے کی طرح کا ذائقہ دار پھل ہوتے ہےں اور لوگ انہیں بڑے مزے سے کھاتے ہیں۔
خیمہ منڈی میںتھر کی مشہورسبزیاں فروخت کرنے والے سوائی بھیل نے”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تھر میں بارش سے پیدا ہونے والی سبزیاں کھمبی‘ للر‘ مریئڑو‘ پپون‘ گوار‘ چبھڑ‘ گدریون اور میھا مناسب نرخوں پر فروخت ہوتی ہیں جن سے ہمارا گزر بسراچھا ہوجا تا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ابتداءمیں تھر کی سبزیاں کمبھی کے علاوہ سوسے ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساب سے لیتے ہیں اور دو سوروپے تک فروخت کرتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے علاوہ تھر کے لوگ یہ سبزیاں شوق سے خرید کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو سبزیاں بچ جاتی ہیں وہ خشک کر لی جاتی ہیں ‘ انہوں نے کہا کہ روزانہ تازہ سبزیاں خرید کرلاتے ہیں۔ صرف گوار‘ چبھڑ‘ میھا اور گدریون دو دنوں تک صحیح رہتی ہیں جن کو ہم پلاسٹک کے تھیلوں میں بند کرکے رکھتے ہیں۔ اےک اور سبزی فروش پیارو خان بجیر نے بتایاکہ تھر میں بارش کے بعد پیداہونے والی سبزیوں میں سب سے زیادہ کھمبی فروخت ہوتی ہے جو تمام سبزیوں سے مہنگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کھمبی شروع میں پانچ سے سات سو روپے میں فروخت ہوتی ہے جو ہم مقامی لوگوں سے چار سو روپے فی کلو کے حساب سے لیتے ہیں‘ بعد ازاں کھمبی زیادہ ہونے کی صورت میں یہ کم نرخ پرخریدتے اور فروخت کرتے ہیں۔ انیوں نے بتایا کہ کھمبیاں یہاں سے گھوٹکی‘ جیکب آباد‘ سکھر‘ دادو‘ حیدرآباد‘ مورو‘ لاڑکانہ اور دوسرے شہر کے تاجر لیکر جاتے ہیں جس سے ہمیں اچھی آمدن ہو جاتی ہے۔پیارو خان بجیر نے بتاےا کہ اگر بارش متواتر ہوتی ہے تو ہمارا کاروبار دو مہینوں تک چلتا ہے اور اگر بارش کم ہوتی ہے تو ہمارا کاروبار 15سے 20 روز چلتا ہے۔


تھر گھومنے آنے والے ضلع ٹھٹہ کے اسلم جت اور رمضان جت نے ”اے پی پی“ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم ہر سال تھر گھومنے آتے ہیں۔ بارش کے بعد تھر کے نظارے بہت دلکش ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم واپسی پر یہاں سے تھر کی سبزیاں لیکر جاتے ہیں جو ہم خود بھی بڑے شوق سے کھاتے ہیں اور رشتہ داروں کو سوغات کے طور پر بھی بھجواتے ہیں۔

تھر کے مقامی باشدوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں مناسب سہولیات کی فراہمی سے نہ صرف لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو گا،روزگار کے بہتر مواقع میسر آئیں گے بلکہ سیاحت کے فروغ میں بھی مدد ملے گی