جنیوا بین الاقوامی کانفرنس نہایت کامیاب رہی،ہم نےمل کردنیا کےسامنےسیلاب متاثرین اور پاکستان کا مقدمہ لڑا،عالمی برادری نےہم پربھرپور اعتماد کا اظہارکیا ،وزیراعظم شہبازشریف

اسلام آباد۔11جنوری (اے پی پی):وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ریزیلیئنٹ پاکستان کانفرنس کو نہایت کامیاب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے مل کر دنیا کے سامنے سیلاب متاثرین اور پاکستان کا مقدمہ لڑا، عالمی برادری نے بھی ہم پر بھرپور اعتماد کیا، قوم کی دعائوں اور ہمارے اخلاص کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں سرخرو کیا، اب ہمیں عوام کی ترقی، خوشحالی اور سیلاب متاثرین کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے اتحاد اور یکجہتی سے کام کرتے ہوئے عوام کے سامنے سرخرو ہونا ہے، دوست ممالک اور عالمی برادری سے ملنے والی امداد کی ایک ایک پائی شفافیت کے ساتھ خرچ کی جائے گی اور اپنی زراعت، صنعت اور انفراسٹرکچر کو بحال کریں گے، ملکی معیشت کے خلاف باتیں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب مل گیا ہے، سیاسی مخالفین کو حکومتی اقدامات ہضم نہیں ہو رہے، انہوں نے قوم میں تقسیم کا زہر گھولا، ملک میں گندم کی قلت نہیں، ملوں کو گندم کی فراہمی صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے، خیبرپختونخوا حکومت درست طریقے سے اپنے وسائل کو بروئے کار نہیں لائی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر ماحولیاتی تبدیلی شیری رحمن، وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود، وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق طارق بشیر چیمہ اور اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین بھی موجود تھے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جنیوا کانفرنس انتہائی کامیاب ثابت ہوئی ہے، یہ کروڑوں عوام کی دعائوں اور اس اخلاص اور محنت کا نتیجہ ہے جس کا مظاہرہ اتحادی حکومت نے سیلاب متاثرین کے لئے کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ تمام متاثرین کی بحالی اور دوبارہ آباد کاری تک حکومت چین سے نہیں بیٹھے گی۔ انہوں نے بتایا کہ جنیوا کانفرنس میں دوست ممالک اور عالمی برادری نے مجموعی طور پر 9.7 ارب ڈالر کے وعدے کئے ہیں، سب سے بڑی امداد کا اعلان اسلامک ڈویلپمنٹ بینک نے 4.2 ارب ڈالر کا کیا ہے، اس کے علاوہ ورلڈ بینک نے 2 ارب ڈالر، ایشین انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک جس کا ہیڈ آفس چین میں ہے، نے ایک ارب ڈالر، ایشیائی ترقیاتی بینک نے 500 ملین ڈالر، آذربائیجان نے 2 ملین ڈالر، کینیڈا نے 18.6 ملین ڈالر، چین نے 100 ملین ڈالر، ڈنمارک نے 3.8 ملین ڈالر، یورپین یونین نے 87 ملین یورو، فرانس نے 380 ملین یورو، جرمنی نے 84 ملین یورو، اٹلی نے 23 ملین یورو، جاپان نے 77 ملین ڈالرز، نیدر لینڈ نے ساڑھے تین ملین یورو، ناروے نے 6.5 ملین یورو، قطر نے 25 ملین ڈالرز، سعودی عرب نے ایک ارب ڈالر، سویڈن نے 7.5 ملین ڈالر، برطانیہ نے 36 ملین پائونڈز اور امریکہ نے بذریعہ یو ایس ایڈ 100 ملین ڈالر کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ جنیوا کانفرنس میں اقوام عالم نے پاکستان کی حکومت اور عوام پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہے، اگر ان کو خدانخواستہ خدشہ ہوتا کہ یہ رقوم شفاف طریقے سے خرچ نہیں ہوں گی تو اتنی بڑی امداد کے اعلانات نہ ہوتے۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے سیاسی مخالفین نے بدترین پروپیگنڈا کیا لیکن عالمی برادری نے اس پر کان نہیں دھرے اور اپنے ٹیکس پیئرز کا پیسہ پاکستان کے لئے دیا، یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے، جس پر پاکستان کے عوام اور اتحادی حکومت کے رہنما مبارکباد کے مستحق ہیں۔

وزیراعظم نے جنیوا کانفرنس کی کامیابی کے لئے بھرپور کردار ادا کرنے پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، وزیر خزانہ اسحق ڈار، وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمن، وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال، اقتصادی امور کے وزیر ایاز صادق، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب، وزیر مملکت برائے خارجہ حنا ربانی کھر کے علاوہ سیکرٹری خارجہ، بیرون ملک پاکستانی سفارتخانوں و مشنز کے حکام اور اتحادی حکومت کے رہنمائوں کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک ایک پائی کو اپنے عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے شفافیت کے ساتھ استعمال کرنا ہے، ایک ایک پائی سیلاب متاثرین کی خدمت، ان کی بحالی اور تعمیر نو کے لئے خرچ کی جائے گی۔

وزیراعظم نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ قوم میں تقسیم در تقسیم کا زہر گھول دیا گیا ہے اور یہ ہماری سیاسی تاریخ پر بہت بڑا دھبہ ہے، اس کے باوجود وفاق اور تمام صوبوں نے مل کر جنیوا کانفرنس میں دنیا کو اتحاد و یکجہتی کا پیغام دیا اور اس کانفرنس میں تمام صوبوں کی نمائندگی موجود تھی، سب نے مل کر پاکستان کا مقدمہ لڑا اور دنیا نے بھی ہماری حکومت پر بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا، اب یہ ہم پر ہے کہ کس طرح اربوں ڈالر کو دن رات محنت سے تمام تر توانائیاں بروئے کار لاتے ہوئے اپنے سیلاب متاثرہ عوام اور صنعت، زراعت، انفراسٹرکچر کی بحالی و ترقی اور تعمیر نو کے لئے خرچ کریں اور اسے اپنی کامیابی کے بے مثال نمونے کے طور پر پیش کریں۔ وزیراعظم نے سعودی عرب، قطر، یو اے ای، ترکی، چین، امریکہ، فرانس، برطانیہ، کینیڈا، یورپی یونین، اسلامک ڈویلپمنٹ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، ایشین انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سمیت تمام دوست ممالک اور عالمی اداروں اور بین الاقوامی برادری کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے دل کھول کر پاکستان کی مدد کی۔

انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر بے پایاں فضل و کرم کیا اور ہمیں اندازوں اور توقعات سے کہیں زیادہ کامیابی عطا کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ جس طرح سیلاب کے بعد افواج پاکستان، تمام وفاقی و صوبائی اداروں نے مل کر متاثرین کی فوری مدد اور بحالی کے لئے کام کیا اسی طرح ہم اتحاد و یکجہتی کے ساتھ کوششیں جاری رکھیں گے تو عوام کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ وزیراعظم نے سعودی عرب کے وزیراعظم و ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے مضبوط پیغام دینے اور سیف ڈیپازٹس پانچ ارب ڈالر تک لے جانے اور سرمایہ کاری دس ارب ڈالر تک بڑھانے کا عندیہ دینے پر بھی ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پاکستان کے دوست ممالک ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت بڑا وسیلہ بنے ہیں، اب ہماری باری ہے کہ کام کر کے دکھائیں۔

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اتحادی حکومت قوم کو مایوس نہیں کرے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ جنیوا کانفرنس میں مجموعی طور پر 9.7 ارب ڈالر کے وعدے ہوئے ہیں، بجٹ معاونت اور عطیات و امداد الگ الگ چیزیں ہیں، اسلامی ترقیاتی بینک کی جانب سے 4 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری ہو گی، پاکستان کو جو بھی امداد ملے گی ہمیں امید ہے کہ اس کی شرائط نرم ہوں گی، اس طرح عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی جانب سے بھی معاونت فراہم ہو گی، ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ موقع دیا ہے اور ہم اس امداد کے ایک ایک روپیہ اور ایک ایک پائی کو متاثرین کی بحالی و آباد کاری پر خرچ کریں گے، اس وقت سخت موسم میں متاثرین جس طرح حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، اس سے انسان لرز جاتا ہے۔

آٹے اور گندم سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ قوم کو اعتماد میں لے چکے ہیں، کل وہ دوبارہ اعداد و شمار کے ساتھ قوم کے سامنے حقائق رکھیں گے، ملک میں اس وقت اللہ کے فضل سے ضرورت کے مطابق گندم کے ذخائر موجود ہیں کیونکہ ہم سابق حکومت کی طرح ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر نہیں بیٹھے ہوئے، سابق دور میں چینی اور گندم کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا، گزشتہ سال گندم کی پیداوار کم ہوئی تھی جبکہ سیلاب سے بھی گندم کی فصل میں کمی کے تناظر میں حکومت نے گندم کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کئے تاکہ ملکی ضرورت کے مطابق گندم کی فراہمی کو ممکن بنایا جا سکے۔

وزیراعظم نے کہا کہ آٹا خالصتاً صوبائی معاملہ ہے، صوبوں کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں، فلور ملوں کو گندم کی فراہمی صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے دور میں پنجاب میں آٹے کی قیمت میں ایک دھیلے کا اضافہ نہیں ہوا تھا، موجودہ صورتحال کے تناظر میں بھی ہم وفاق کی سطح پر مزید اقدامات کریں گے۔ تعمیر نو اور بحالی سے متعلق غیر ملکی میڈیا کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ہم عالمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں، تعمیر نو اور بحالی کے اقدامات تیز تر انداز میں آگے بڑھائے جائیں گے، اس مقصد کے لئے جدید ٹیکنالوجی، طریقہ ہائے کار پر عمل ہو گا، ہمارا ہدف ہے کہ آنے والے مون سون سے قبل تمام متاثرین کی بحالی کو ممکن بنایا جائے، امداد میں ملنے والے فنڈز کی ایک ایک پائی شفاف طریقے سے خرچ ہو گی اور اس کا آڈٹ بھی ہو گا، اس سے عطیات اور امداد دینے والے ممالک اور اداروں کو بھی ایک مضبوط پیغام جائے گا، ہمیں یقین ہے کہ اگر ہم شفاف انداز میں برق رفتاری اور محنت سے کام کریں گے تو امدادی رقوم کے وعدے بھی جلد عملی شکل اختیار کریں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ بین الاقوامی کانفرنس کے حوالے سے تمام صوبوں اور سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی تھی، آزاد کشمیر میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیلاب سے نقصان نہیں ہوا تھا، غذر میں سیلاب سے تباہی ہوئی تھی، میں خود وہاں گیا تھا، میرے ہمراہ قمر زمان کائرہ بھی تھے، ہم نے غذر کے لئے پیکج کا اعلان بھی کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان سندھ میں، اس کے بعد بلوچستان، پنجاب کے دو اضلاع اور خیبر پختونخوا کے دو اضلاع ڈی آئی خان اور سوات سیلاب سے زیادہ متاثر ہوئے، سوات میں دریائی راستوں میں انسانی مداخلت کے نتیجہ میں زیادہ نقصان ہوا، کانفرنس میں خیبرپختونخوا کے صوبائی وزیر اور بلوچستان کے چیف سیکرٹری نے شرکت کی تھی، اس لئے یہ بات حقائق کے منافی اور بے بنیاد ہے کہ کسی سے مشاورت نہیں ہوئی تھی۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ صوبوں کے علاوہ وفاق نے سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے 100 ارب روپے خرچ کئے ہیں 80،90 ارب روپے بی آئی ایس پی کے ذریعے دیئے گئے ہیں،2.7 ملین خاندانوں کو فی خاندان 25 ہزار روپے کی رقم شفاف طریقے سے تقسیم کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ تمام صوبو ں کو ان کا حق ملے گا اوران کو مشاورت کے عمل میں شامل کریں گے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ یہ تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب تھا ، ابھی تک بہت سے علاقوں میں پانی کھڑا ہے ، ہم سب نے مل کر سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے دن رات کوششیں کیں اور اپنا فرض ادا کیا، نتائج اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات اورمعاشی صورتحال پربھی بات چیت ہوئی، امن وامان قائم رکھنا وفاقی اورصوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے ۔ انہوں نے عمران نیازی کے بیان پر افسوس کا اظہارکیا جس میں انہوں نے خیبرپختونخوا کو فنڈز فراہم نہ کرنے کا الزام لگایا ۔ وزیراعظم نے کہا کہ نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ2010 کے تحت قومی آمدنی کا ایک فیصد دہشت گردی کے خلاف جنگ کیلئے خیبرپختونخوا حکومت کو جاتا ہے ، سب سے پہلے اس کیلئے رقم مختص کی جاتی ہے، صوبائی حکومت نے اپنے فرائض ادا نہیں کئے اوردروغ گوئی سے کام لیا جارہا ہے۔

وزیراعظم نے اس اعتماد کا اظہارکیا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں صورتحال میں بہتری آئے گی۔ وزیراعظم نے پاکستان کا مقدمہ بہترین انداز میں لڑنے اور سیلاب متاثرین کی بہترین ترجمانی پر سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا اورکہا کہ ان کی محنت اور کاوشوں کے نتیجہ میں جنیوا کانفرنس کی کامیابی ممکن ہوئی ، پاکستانی قوم کی طرف سے میں ان کو ہدیہ تبریک پیش کرتاہوں۔ اس موقع پر وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اتحادی حکومت کی کاوشوں کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں، سیلاب متاثرین کی عالمی امداد کے ساتھ ہمیں اپنے وسائل کو بروئے کار لانا ہے، جنیوا میں پاکستان کی تعمیرنو اور بحالی میں شراکت کے موضوع پر ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس توقعات سے بڑھ کر کامیاب رہی، کامیابی پر وزیراعظم محمد شہباز شریف اور اتحادی حکومت کو مبارکباد دیتا ہوں۔

انہوں نے کہاکہ کووڈ اورمعاشی مشکلات کے باوجود عالمی برادری پاکستان کے ساتھ کھڑی ہے۔ وزیر خارجہ نے کہاکہ ملکی معیشت کے خلاف باتیں کرنے والوں کو منہ توڑ جواب مل گیا ہے، پاکستان نے جنیوا کانفرنس کے لئے 8 ارب ڈالر کا ہدف رکھا تھا جسے نہ صرف پورا کیا بلکہ 9 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہدف حاصل کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اتحادی حکومت کی آٹھ نو ماہ کی کارکردگی اور وزیراعظم کی خارجہ پالیسی کامیاب نظرآرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو بتایا کہ سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے پاکستان50فیصد خود برداشت کرے گا جبکہ عالمی برادری 50فیصد مدد کرے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا نے پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑا ہو کر ساتھ دیا، سب نے ہمارا ساتھ دیا، ہم نے ان وعدوں کو پورا کرنا ہے جو ہم نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے کئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم نے یہ تاثر توڑا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر تنہا ہے، ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں اورعالمی برادری نے پاکستان کا ساتھ دیا ہے، یوپی یونین نے امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جبکہ فرانس جیسے ملک نے جہاں کچھ عرصہ قبل تک ہمارا سفیر بھی نہیں تھا380 ملین یورو کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ کرنے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی لیکن اس کے برعکس پوری دنیا پاکستان کی معیشت کو ڈیفالٹ نہیں دیکھنا چاہتی۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور فرانس کے صدرنے جو پیش کش کی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر دفن ہوا کہ پاکستان تنہا ہے، مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ پاکستان کے سیلاب متاثرین تک مدد پہنچا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سیلاب متاثرین اس وقت بھی مشکل میں ہین، سیلاب کے کئی ماہ بعد بھی متاثرین کی ایک بڑی تعداد بے گھر اور وہ کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ سیلاب سے نہ صرف فصلیں تباہ ہوئیں بلکہ نئی فصلوں کی بوائی بھی متاثر ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ متاثرین کی تعداد اور ان کے مسائل بہت زیادہ ہیں، سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں سردی کے باعث متاثرین کو سخت مشکلات درپیش ہیں اور انہیں گرم کپڑوں، کمبل اور کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اتحادی حکومت نے 9 ماہ میں جو کیا وہ سابق حکومت نے 4 سال میں بھی نہیں کر سکی ہے،ہم سیلاب متاثرین کی معاشی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ وزیر خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ ہر سال سیلاب آتے ہیں لیکن ایسا سیلاب اوربارشیں پہلی بار دیکھی ہیں ،ایک تہائی پاکستان سیلاب میں ڈوب گیا اور ملک کے وسط میں 100کلومیٹر کی جھیل بن گئی، یہ عام مون سون نہیں تھا ، یہ ہمارے لئے قیامت سے پہلے قیامت کا سماں تھا جس پر ہم اللہ تعالی سے بھی استغفار کرتے ہیں۔

انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے ریزیلیئنٹ پاکستان کا تصوردیا جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اس موقع پر بتایا کہ کانفرنس میں جانے سے قبل ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ بین الاقوامی برادری کے سامنے 16.3 ارب ڈالر کا ہدف جب رکھیں گے تو اس میں آدھا حصہ ہم خود اپنے وسائل سے فراہم کرنے کا اعلان کریں گے، ہم نے 8.15 ارب ڈالر کا ہدف مقرر کیا تھا، بین الاقوامی کانفرنس میں جو وعدے ہوئے ہیں ان میں 8 ارب ڈالر کے پراجیکٹ لونز اور باقی عطیات ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ کانفرنس کی سائیڈ لائن پر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی، آئی ایم ایف بجلی اور گیس کے شعبے میں اصلاحات کا کہہ رہا ہے، بعض مالیاتی امور جیسے سپیشل ٹیکس بھی ہمارے سامنے ہے، اس پر ہائی کورٹ کی جانب سے سٹے ہے، اس سے دسمبر کے ریونیو کے اہداف مکمل نہیں ہوئے تھے، تاہم پاکستان کا موقف ہے کہ اس سال کے آخر تک ہم یہ اہداف حاصل کر لیں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کی جانب سے باقی ماندہ سبسڈیز کے حوالے سے بات چیت ہوئی ہے، ہم جو بھی اقدامات کریں گے، اس سے عام آدمی پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ جنیوا روانہ ہونے سے قبل انہوں نے واضح کیا تھا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر10ارب ڈالر ہیں، ماضی میں پاکستان میں غیر ملکی زرمبادلہ کا ہر سینٹ اسٹیٹ بینک میں جاتا تھا، فروری 1999ء میں ہم نے اس کو تین حصوں میں تقسیم کیا اور 30 جون 1999 کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر کے حجم کا طریقہ کار تبدیل ہوا جو لوگ اس حوالے سے پروپیگنڈا کر رہے ہیں، یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے 24 ویں معیشت کو 47 ویں نمبر پر لا کھڑا کیا، اب بھی ان سے کوئی اچھی بات ہضم نہیں ہو رہی، ہم جنیوا میں ملک کے لئے کام کر رہے تھے اور یہاں یہ بیٹھ کر ٹویٹس کر رہے تھے کہ کمرشل بینکوں سے پیسے نکالے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے تمام منصوبہ بندی کر لی ہے، پریشانی کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اللہ ان لوگوں کو ہدایت دیں جو ملک کے دیوالیہ ہونے کی گردان کر رہے ہیں۔ ایک سوال پر وزیر خزانہ نے کہا کہ تعمیر نو اور بحالی کے تین سال کا منصوبہ بنایا گیا ہے، موجودہ شرح کے حساب سے 650 ارب روپے حکومت اپنے وسائل سے فراہم کرے گی، اس ضمن میں وفاقی حکومت کے سالانہ ترقیاتی پروگرام اور صوبوں کے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے معاونت حاصل کی جائے گی، صوبوں سے اس حوالے سے بات ہوئی ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ محصولات میں کمی کو پورا کرنے کے لئے حکومت اقدامات کرے گی تاہم اس کا حجم زیادہ نہیں ہو گا اور لوگوں پر بھی اس کا بوجھ نہیں ڈالا جائے گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ گیس کے گردشی قرضے میں بھی اضافہ ہوا ہے اوراس وقت یہ 1600 ارب روپے ہے، صارفین پر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا، گردشی قرضے کو کم کریں گے۔