حکومتیں تو بدلیں لیکن بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام نے جو کام شروع کیا اس جذبےکو کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔ ، وفاقی وزیر شازیہ مری کی ’’اے پی پی‘‘ سے گفتگو

اسلام آباد۔28اپریل (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے تخفیف غربت و سماجی تحفظ شازیہ مری نے کہا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا آغاز 2008ء میں ہوا اور 2010ء میں اسے قانونی تحفظ ملا اب تک بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا ہے، اس دوران حکومتیں تو بدلیں لیکن ادارے نے جو کام شروع کیا تھا اس جذبےکو کوئی تبدیل نہیں کر سکا۔

جمعرات کو ”اے پی پی” سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ کیونکہ قانون سازی ہو چکی تھی اور اس کا ڈیٹا بیس اکٹھا ہو چکا تھا، اس کا ڈیٹا کل پاکستان کے تقریباً 34 ملین گھرانوں کا تھا جو اس ادارے نے جمع کیا جس میں سے 7 ملین سے زائد خاندانوں کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعہ امداد فراہم کی جاتی ہے اور بے نظیر کے نام سے منسلک یہ پروگرام اس لیے بھی تھا کہ یہ بے نظیر بھٹو کا اپنا وژن تھا کہ جو غریب گھرانے ہیں ان کو کسی نہ کسی طریقہ سے کوئی پروگرام بنا کر ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج بد قسمتی سے ملک کے اندر غربت بہت بڑھ چکی ہے، غربت ، مہنگائی اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو معاشی حالات ہیں وہ بہت زیادہ تشویشناک ہیں لہذا ایسے ماحول کے اندر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا دائرہ کار بڑھانا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جس کیلئے ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور تقریباً جون تک اس کا دائرہ وسیع ہو گا اور ہم موجودہ حالات کے باعث اس کا دائرہ مزید بڑھانا چاہتا ہیں اور انشاء اللہ ہم اس کا دائرہ مزید بڑھائیں اور زیادہ لوگوں تک رسائی حاصل کریں گے تاکہ وہ اس پروگرام سے مستفید ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ عوام میں رہتی ہیں اور انہوں نے مختلف مقامات پر مختلف شکایات سنی ہیں کہ 2019ء میں کوئی طریقہ تھا جس کے ذریعہ لاکھوں لوگوں کو پروگرام سے نکال دیا گیا اور تاثر یہ دیا گیا یہ لوگ مستحق نہیں ہیں کوئی امیر لوگ ہیں جن کو اس پروگرام میں شامل نہیں کیا جا سکتا، جب ان لوگوں کو نکالا گیا تو اس وقت بھی سوالات اٹھے لیکن اس وقت کی حکومت نے ان پر دھیان نہیں دیا اور لاکھوں لوگوں کو اس پروگرام سے نکال دیا گیا، گذشتہ حکومت نے باقاعدہ ایک مہم کے ذریعہ یہ تاثر دیا کہ نکالے گئے 8 لاکھ 20 ہزار لوگ اس پروگرام کے مستحق نہیں تھے، اس سے زیادتی ان لوگوں کے ساتھ بھی ہوتی ہے جنہوں نے سروے کیا کیونکہ پروگرام سے قبل باضابطہ سروے کیا گیا تاکہ پتہ چل سکے کون مستحق ہے اور کون نہیں، سروے کرنے والوں نے ایک میکنزم فالو کیا لیکن گذشتہ حکومت نے جان بوجھ کر ایک منفی تاثر دینے کی کوشش کی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

جب ہم حکومت میں آئے تو نکالے گئے لوگوں کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ کچھ فلٹرز لگائے گئے تھے جن کی بنیاد پر ان لوگوں کو نکالا گیا اور ثابت ہوا کہ نکالے گئے لوگوں کی تحقیق نہیں کی گئی اور ان کو اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ نہ تحقیق ہوئی، نہ اپیل کا حق دیا گیا اور 8 لاکھ 20 ہزار لوگوں کو ایک اعلان کے ذریعہ پروگرام سے نکال دیا گیا۔ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ زیادتی کی گئی ہے اور انہیں اپیل کا حق دینا چاہئے کیونکہ ان لوگوں کو اپیل کا حق دیا جائے گا تو ہی حقیقت کا ادراک ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو جھوٹا کہنا یا کسی کو چور کہنا یہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی سرکاری محکمے میں 20 گریڈ کا افسر ہے تو یقیناً اس کو اس پروگرام میں نہیں ہونا چاہئے لیکن اس کے بارے میں بھی تحقیق ہونی چاہئے کہ کیا واقعی یہ وہی شخص ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ ایک ایسا پروگرام جو عوام کیلئے ہے اور جس سے عوام کو ریلیف مل رہا ہے اس پروگرام کا دائرہ کار بڑھانا چاہئے نہ کہ اس کو کم کرنا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ہم اپنے دور حکومت میں اس پروگرام کے دائرہ کار کو مزید وسعت دیں گے اور کوشش کریں گے کہ جون تک 8 ملین تک لے جایا جائے بلکہ ہماری تو یہ کوشش ہے کہ اس کو کم از کم 10 ملین تک لے جایا جائے کیونکہ غربت کی شرح بڑھ رہی ہے، کاش گذشتہ حکومت غربت کی شرح کا ادراک رکھتی ۔

شازیہ مری نے کہا کہ اس پروگرام کے تحت روزگار دینے والے پروگرام بند کر دیئے گئے تھے ہم وہ تمام پروگرام دوبارہ شروع کریں گے کیونکہ حکومت چاہتی ہے کو لوگوں کو ہنرمند بنایا جائے تاکہ وہ اپنے پائوں پر کھڑے ہو کر اپنی اور اپنے خاندان کی کفالت کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے پروگرام بند کرنے کا بہت نقصان ہوا ہے کیونکہ وہ راستہ بند کر دیا گیا جس سے یہ لوگ خود کفیل ہو سکتے تھے۔