اسلام آباد۔15نومبر (اے پی پی):ایڈیشنل سیکرٹری وفاقی وزارت تعلیم و پیشہ وارانہ تربیت حسن ثقلین نے کہا ہے کہ حکومت تعلیم تک رسائی اور معیار کو بہتر بنانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھا رہی ہے ، تعلیمی اداروں میں مفت کھانے کی فراہمی، صحت و صفائی کے منصوبے، ابتدائی بچپن کی تعلیم کے کلاس رومز، شمسی توانائی سے چلنے والے سکولز، طالبات کے لئے پنک بس سروس، روبوٹکس اور مصنوعی ذہانت سے لیس آئی ٹی اور سٹیم لیبز کا قیام، غیر استعمال شدہ ہاسٹلز کو آئی ٹی لیبز میں تبدیل کیا جارہا ہے ، عوامی اور نجی شراکت داری کے ذریعے تعلیمی ماہرین کو تعلیمی نظام کا حصہ بنایا جا رہا ہے تاکہ اس کی صلاحیت اور رسائی میں بہتری لائی جا سکے۔
وہ پاکستان انسٹی ٹیویٹ آف ایجوکیشن (پی آئی ای) اور پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کے اشتراک سے پالیسی ڈائیلاگ (بعنوان تعلیم پر سرمایہ کاری :مالیاتی خلا کو پر کرنا اور وسائل کی بہترین تقسیم )سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس پالیسی ڈائیلاگ کا مقصد تعلیم کو درپیش مالی مسائل پر روشنی ڈالنا اور عملی اقدامات کی نشاندہی کرنا تھا تاکہ آئین کے آرٹیکل 25-A اور پائیدار ترقی کے ہدف 4 کے تحت سب کے لیے معیاری تعلیم فراہم کی جا سکے۔پالیسی ڈائیلاگ کے آغاز میں ڈائریکٹر جنرل پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن ڈاکٹر محمد شاہد سرویا نے تعلیمی فنڈنگ کے خلا کو پُر کرنے کے لیے اجتماعی اور جدید حل تلاش کرنے کے لئے پی آئی ای کے عزم کو دہرایا ۔
انہوں نے بتایا کہ 23۔2022 کے لئے تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا 1.5 فیصد تھا جو کہ رواں مالی سال میں بڑھا کر 1.9 فیصد کر دیا گیا ہے ، یہ مثبت پیشرفت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کے پالیسی ڈائیلاگ پاکستان کے تعلیمی نظام کو مضبوط بنانے اور ایک منصفانہ اور جامع تعلیمی نظام کی جانب بڑھنے کے لئے اہم قدم ہیں۔پاکستان انسٹی ٹیویٹ آف ایجوکیشن ،ریسرچ ونگ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ضیغم قدیر نے تعلیمی فنانسنگ، بجٹ کے مؤثر استعمال اور پاکستان کے صوبوں اور مختلف تعلیمی درجات میں وسائل کی مساوی تقسیم سے متعلق شرکاء کو آگاہ کیا ۔پینل مباحثے میں ممتاز پینلسٹ جن میں خیبرپختونخوا کے اسپیشل سیکرٹری برائے ابتدائی و ثانوی تعلیم قیصر عالم، سینئر ایجوکیشن کنسلٹنٹ ورلڈ بینک سے عزا فارق،
آئی سیپس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر احمد علی، ریگولیٹری ریفارمز کنسلٹنٹ امجد سلیمی اور پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرا احمد شامل تھیں جنہوں نے تعلیمی مالیاتی خلا کو پر کرنے، وسائل کی بہترین تقسیم اور ایک مضبوط، شمولیتی اور منصفانہ تعلیمی نظام کی تعمیر کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔