حکومت نے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے امید کا بجٹ دیا ہے، وبا کی مشکلات کے باوجود عمران خان نے دلیری سے مشکل فیصلے کیے، ہر گھر کے ایک فرد کو ہنر کی تربیت دی جائے گی ، وزیر خزانہ شوکت ترین

72

اسلام آباد۔25جون (اے پی پی):وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے امید کا بجٹ دیا ہے، کورونا وائرس کی وبا کی مشکلات کے باوجود عمران خان نے دلیری سے مشکل فیصلے کیے جس کی وجہ سے ہماری شرح نمو 4 فیصد تک آگئی ہے، آئندہ بھی کے لئے بھی پائیدار شرح نمو کے ثمرات نچلے طبقے تک پہنچانے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے گئے ہیں، صنعت، زراعت بالخصوص برآمدات سے وابستہ صنعتوں کی ترقی کے لئے اقدامات سے ملک ترقی کرے گا، موبائل فون کی 5 منٹ سے زیادہ کال پر 0.75 پیسے ٹیکس وصول کیا جائے گا، 12 قسم کے ودہولڈنگ ٹیکس ختم کردیئے گئے ہیں، تھرڈ پارٹی آڈٹ کے ذریعے عادی ٹیکس چوروں کی نشاندہی کرکے باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت انہیں گرفتار کیا جاسکے گا، دودھ، آٹے اور ان کی مصنوعات پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے، 850 سی سی گاڑی پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اب یہ فیصلہ 1000 سی سی پر لاگو ہوگا، صحت کے شعبہ کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے، آئی ٹی کے شعبے کو ٹیکس سے استثنیٰ ہوگا، آئندہ دو تین سالوں میں ہماری آئی ٹی کی ایکسپورٹس 6 سے 8 ارب ڈالر متوقع ہیں۔ 2022ء تک دس کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔

جمعہ کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ22۔ 2021 ء پر بحث کو سمیٹتے ہوئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ پی ٹی آئی کی حکومت جب برسر اقتدار آئی تو سب سے بڑا مسئلہ 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ خسارہ تھا اور اس کے علاوہ 10سے 11 ارب ڈالر کے قلیل المدت قرضے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں شرح نمو اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی گروتھ قرضے لے کر دکھائی گئی تھی، 2008ء میں قرضے 6 ٹریلین روپے تھے، جو 2018 یعنی مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اختتام پر بڑھ کر 30 ٹریلین روپےہوگئے۔ 2018 میں کرنٹ اکائونٹ خسارہ 20 ارب ڈالر تھا جبکہ 8 ارب ڈالر کے قلیل المدتی بیرونی قرضے فوری واپس کرنا تھا ۔ یہ کل 28 ارب ڈالر کا گیپ اور بڑامسئلہ تھا جس کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف کے پاس آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

آئی ایم ایف نے سخت شرائط رکھیں جن میں ڈسکائونٹ سوا تیرہ فیصد کردیا گیا۔ ایکسچینج ریٹ کو 169 روپے فی ڈالر پر پہنچا دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ گیس اور بجلی کے ٹیرف بھی بڑھا دیئے گئے، آئی ایم ایف درآمدات پر دبائو ختم کرنا چاہتی تھی۔ 19۔2018 ء میں ہماری شرح نمو دو فیصد پر آگئی۔ عمران خان نے دلیری سے مشکل فیصلے کیے۔ انہوں نے کہا کہ اوپر سے کورونا وائرس کی وبا پھیل گئی ، جس کی پہلی، دوسری اور تیسری لہریں آئیں۔ ساری مشکلات کے باوجود انہوں نے اچھے فیصلے کیے۔ وزیراعظم عمران خان نے ہائوسنگ کی صنعت کو ترقی دینے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں ہم نے آئی ایم ایف سے مراعات لیں۔

ایکسپورٹ، زراعت اور ہائوسنگ سیکٹر کو بہتر کیا گیا۔ پوری دنیا میں کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے منفی گروتھ ہوئی، ہماری بھی صرف 0.5 فیصدمنفی گروتھ ہوئی مگر اللہ کے فضل سے عمران خان نے جو اقدامات اٹھائے ان کی پوری دنیا میں ستائش کی گئی۔ سمارٹ لاک ڈائون کے فیصلے سے ہمارے کارخانے چلتے رہے اور ہماری شرح نمو 4 فیصد تک آگئی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری حکمت عملی ہے کہ ہم نے ترقی کرنی ہے اور اقتصادی اور معاشی شرح نمو میں اضافہ کرنا ہے۔ اس دفعہ ہم جو ترقی کریں گے وہ پائیدار اور جامع ترقی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 74 سالوں کے دوران حکمت عملی یہ رہی ہے کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات غریب تک نہیں پہنچے، ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم غریب کا خیال رکھیں گے۔ ہم نے 40 سے 60 لاکھ گھرانوں کو بلاسود قرضے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے زرعی شعبہ سے وابستہ لوگوں کو ڈیڑھ اور تین لاکھ کے قرضے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح شہری علاقوں میں لوگوں کو کاروبار کے لیے 5 لاکھ کا بلاسود قرضہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں کو علاج معالجے کے لیے صحت کارڈ دیئے جائیں گے، ہر گھر کے ایک فرد کو ہنر کی تربیت دی جائے گی تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔

انہوں نے کہا کہ بلاسود قرضوں کے حوالے سے اخوت اور این آر ایس پی گزشتہ 20 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں ، ہم اسی طرز پر لوگوں کو قرضے دینے کے لیے اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے گروتھ بڑھانی ہے تو آمدنی کے ذرائع میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اگلے سال کے لئے محصولات کا 5800 ہدف ہم نے مقرر کیا ہے، اس کے لیے ٹیکس اصلاحات لا رہے ہیں۔ ہم نے ٹیکس دہندہ اور ٹیکس وصول کرنے والوں کے درمیان الیکٹرانک لنک پیدا کرنا ہے۔ یونیورسل اسیسمنٹ سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھرڈ پارٹی آڈٹ ہوگا، جو لوگ ٹیکس ادا نہیں کریں گے تھرڈ پارٹی آڈٹ کی سفارش کے مطابق ان عادی ٹیکس چوروں کو باقاعدہ ایک طریقہ کار کے تحت گرفتار کیا جاسکے گا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ودہولڈنگ ٹیکس ایک نامناسب طریقہ تھا، بجٹ کے ذریعے 12 قسم کے ودہولڈنگ ٹیکس ختم کیے جارہے ہیں۔ ہم نے آٹو پالیسی کے تحت پہلے 850 سی سی گاڑی پر ٹیکس کم کرنے کا فیصلہ کیا تھا اب یہ بڑھا کر 1000 سی سی کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صحت کے شعبہ پر ٹیکس نہ لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ کا ٹیکس کم کردیا گیا ہے۔ دودھ اور اس کی دیگر مصنوعات پر بھی ٹیکس ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کنسٹرکشن پیکج کے تحت انکم ٹیکس کی شرح 35 فیصد سے کم کرکے 20 فیصد کردی گئی ہے۔ آئل ریفائنریز کو حاصل ٹیکس کی چھوٹ، پی ایم آر کی چھوٹ اور مراعات دی ہیں تاکہ وہ یورو فائیو فیول بنا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ موبائل فون اور انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس ٹیکس نہیں ہوگا تاہم موبائل فون پر پانچ منٹ سے زیادہ کال پر 0.75 پیسے وصول کریں گے۔ دودھ پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے۔

زیور پر ویلیو ایڈیشن کے بعد 17 فیصد ٹیکس لگے گا کیونکہ یہ غریب آدمی کے لئے نہیں ہوتا اس کا فائدہ امیر آدمی کو ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولٹری اور جانوروں کی خوراک پر ٹیکس 15 فیصد سے کم کرکے 10 فیصد کردیا گیا۔ ٹیکسٹائل اشیاء پر ٹیکس 12 سے 10 فیصد کردیا گیا ہے۔ آٹے اور اس کی مصنوعات پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ترقی میں پی ایس ڈی پی کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے، ہم نے 630 ارب سے بڑھا کر پی ایس ڈی پی 900 ارب تک کردیا ہے۔ پی ایس ڈی پی کے تحت ٹرانسپورٹ ، صحت، اعلیٰ تعلیم، بلوچستان اور سندھ کی ترقی، کراچی کے ٹرانسفارمیشن منصوبے اور فاٹا کے ضم شدہ اضلاع کی ترقی کے لیے اس میں رقوم رکھی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال مالیاتی خسارہ کا ہدف 0.6 فیصد ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے ہم زراعت پر رقم خرچ کریں گے کیونکہ 63 فیصد آبادی دیہاتوں میں رہتی ہے۔ 15 بیس سال سے ہم نے زراعت پر توجہ نہیں دی جس کی وجہ سے گندم، چینی، پام آئل، دالیں اور دیگر فوڈ آئٹمز درآمد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زرعی قرضوں، کھادوں، زرعی مشینری ، کولڈ سٹوریجز اور مڈل مین کو ختم کرنے کے لیے ملک بھر میں ایگری مال بنائیں گے جہاں کاشتکار خود اپنی اجناس بیچنے کے لیے آسکیں گے۔ مڈل مین 400 سے 500 فیصد منافع وصول کرتا ہے اس فیصلے سے اس کا سدباب ہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے پچھلی دفعہ بھی صنعتوں کے خام مال پر مراعات دی تھیں، اس دفعہ 45 ارب کی مراعات دے رہے ہیں۔ صنعتیں چلنے سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ صنعتیں چلنے سے درآمدات بھی کم ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایس ایم ای سیکٹر کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ ایس ایم ای کو پہلے کوئی بنک قرضہ نہیں دیتا تھا، اب اس شعبہ کو 100 ارب روپے کے آسان شرائط پر 9 فیصد شرح پر دیئے جائیں گے۔ شوکت ترین نے کہا کہ صنعتوں کو بجلی کے سستے ٹیرف دیں گے۔ ایکسپورٹ سے وابستہ صنعتوں کو ویلیو ایڈڈ میں زیادہ مراعات دی جائیں گی۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کو پہلے سے حاصل مراعات جاری رہیں گی۔ آٹو سپیئر پارٹس، فارماسوٹیکل، ٹو وہیلرز کی ایکسپورٹ کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئی ٹی کا شعبہ آئندہ دو تین سالوں میں چھ سے آٹھ ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرے گا، ہم نے آئی ٹی کے شعبہ کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔

وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا کہ سی پیک کے ذریعے صنعتوں کے فروغ کے لیے ہماری بات ہوئی ہے، چین نے اس پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ سی پیک کے تحت سپیشل اکنامک زونز میں ایکسپورٹ انڈسٹری لگانے کے لیے چین سمیت دیگر ملکوں سے بھی سرمایہ کاری پاکستان لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ہائوسنگ سیکٹر کا گروی ایک فیصد سے بھی کم رکھا جاتا ہے جبکہ امریکہ میں مارگیج 80 فیصد ہے۔ وزیراعظم عمران خان یہ سب کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور اب ہر شہری بنکوں سے گھروں کی تعمیر کے لیے قرضہ لے سکتا ہے، کنسٹرکشن کے شعبے سے 40 صنعتیں وابستہ ہیں جس سے لوگوں کو روزگار ملے گا اور کنسٹرکشن پیکج کی وجہ سے شرح نمو میں پہلی بھی بہتری آئی ہے اس سے مزید آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ احساس پروگرام دنیا کا چوتھا بڑا پروگرام ہے اس پروگرام کے ذریعے غریب آدمی کا خیال رکھا گیا ہے اس پروگرام کے تحت 15 ملین گھروں کو 12 ہزار روپے شفاف انداز میں دیئے گئے جس ورلڈ بنک سمیت دیگر اداروں نے ستائش کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 12 ملین گھروں کو رقم دی گئی، آئندہ سال کے لئے 260 ارب روپے مختص گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ویکسی نیشن کے لئے 1.1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ جون 2022ء تک 10 کروڑ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے ای ووٹنگ کے لیے رواں سال بجٹ میں 5 ارب روپے مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ وزیراعظم صاف شفاف انتخابات کے لیے ای ووٹنگ متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں استعدادی ادائیگیوں کی مد میں 900 ارب روپے دینے پڑتے ہیں جس سے گردشی قرضہ بڑھتا ہے۔

عمران خان نے کہا ہے کہ بجلی کے ٹیرف میں اضافہ نہیں کریں گے، ہم اس معاملے کا آئوٹ آف دی باکس حل نکالنے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ سال سے گردشی قرضہ کم ہونا شروع ہو جائے گا جس کے لیے ہمیں بجلی کی ریکوریوں، لائن لاسز میں کمی سمیت دیگر اقدامات اٹھانے ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نچلے طبقے کو بجلی، آٹے ، گھی، چینی سمیت دیگر اشیاء پر ٹارگٹڈ سبسڈی دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیموں کی تعمیر طویل المدت منصوبے ہوتے ہیں اس لیے کوئی حکومت اس کے لیے رقم مختص نہیں کرتی مگر عمران خان نے ہمیشہ مستقبل کا سوچا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے معاشرے کے تمام طبقات کے لیے امید کا بجٹ دیا ہے، پہلی دفعہ 40 سے 60 فیصد گھرانوں کا خیال رکھا جارہا ہے، ہم مڈل کلاس، صنعتوں ، زرعی شعبے کی بہتری کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں۔