اسلام آباد۔18جون (اے پی پی):وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر خان نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان کو ایک ترقی یافتہ، صنعتی طور پر مضبوط ریاست بنانے کے لیے نیشنل انڈسٹریل پالیسی پر عملدرآمد شروع کر چکی ہے جو ایک جامع، فعال اور زمینی حقائق پر مبنی پالیسی ہے۔بدھ کو ان خیالات کا اظہار انہوں نے نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو چکا ہے جس کی قیادت وزیراعظم کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ صرف ریگولیٹری اصلاحات کا لمحہ نہیں، بلکہ قومی سطح پر تبدیلی کی ایک تحریک ہے۔معاون خصوصی نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو ملک میں مہنگائی کی شرح 38 فیصد اور شرح سود 22 فیصد تھی، آج ہم نے مہنگائی کو کم کر کے 1.5 فیصد تک لا کر ایک اہم سنگ میل عبور کیا ہے۔
ہارون اختر خان نے صنعتی ترقی کے لیے حکومت کے آئندہ اقدامات بیان کرتے ہوئے درج ذیل نکات پر زور دیاکہ سپر ٹیکس کا خاتمہ ،کارپوریٹ ٹیکس ریٹ میں کمی ،ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بجلی کے نرخوں میں منتقل کرنا،برآمد کنندگان کے لیے لاگت میں کمی اور عالمی مسابقت میں بہتری ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں برآمد کنندگان کے لیے لاگت کے مسائل ختم کرنا ہوں گے، یہی پائیدار اور مضبوط معیشت کی بنیاد ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل انڈسٹریل پالیسی کے نمایاں نکات میں بیمار صنعتی یونٹس کی بحالی ،پاکستان بینکنگ ایسوسی ایشن کے ساتھ مالیاتی ری سٹرکچرنگ پیکجز، قرض تک رسائی مینوفیکچرنگ سیکٹر کو قرض دینے کے لیے بینکوں کو مراعات ،سرمایہ کاری تحفظ فریم ورک،سرمایہ کاروں کو غیر ضروری ریگولیٹری مداخلت سے بچانے کے لیے ٹیکس اصلاحات اور کارپوریٹ ٹیکس میں کمی، سپر ٹیکس میں اصلاح کرنا ہے ۔ہارون اختر خان نے کہا کہ یہ پالیسی فائلوں کی زینت بننے کے بجائے
عملی نتائج کے ذریعے نظر آئے گی۔ انہوں نے کاروباری برادری کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت انہیں وضاحت، اعتماد اور تسلسل فراہم کرے گی۔انہوں نے کہا کہ ہم اگلے 7 سے 8 سال تک 6 سے 7 فیصد جی ڈی پی کی شرح سے ترقی برقرار رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں ، یہی ترقی یافتہ قوم بننے کا راستہ ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت، نجی شعبے اور سول سوسائٹی کو مل کر پاکستان کی اقتصادی بحالی اور صنعتی ترقی کے لیے کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ نیشنل انڈسٹریل پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی سوچ کی عکاس ہے اور وزیراعظم کے اس وژن کا تسلسل ہے کہ پاکستان کو ایک جدید صنعتی ریاست بنایا جائے۔ انہوں نے ماضی کے معاشی چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تو مہنگائی کی شرح 38 فیصد جبکہ شرحِ سود 22 فیصد تھی، آج ہم نے مہنگائی کو کم کر کے 1.5 فیصد تک پہنچا دیا ہے جو کہ ایک بڑی کامیابی ہے تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ کچھ بڑے مسائل اب بھی موجود ہیں
جیسے کہ توانائی کی بلند لاگت، بھاری ٹیکس بوجھ اور شرح سود جو ملکی صنعت اور برآمدات کی مسابقت پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔مستقبل کی سمت کا تعین کرتے ہوئے معاون خصوصی نے سپر ٹیکس کے خاتمے، کارپوریٹ ٹیکس کی شرحوں کو معقول بنانے اور ایندھن کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیا ، یہ وہ کلیدی اقدامات ہیں جو صنعتی اور برآمدی ترقی کو فروغ دیں گے۔انہوں نے کہاکہ ہمیں برآمد کنندگان کے لیے لاگت کے مسائل ختم کرنا ہوں گے۔ یہی پائیدار اور مضبوط معیشت کی بنیاد ہے۔نیشنل انڈسٹریل پالیسی جو وزارت صنعت و پیداوار کی سربراہی اور بین الاقوامی ماہرین خصوصاً پروفیسر نکولس لیا (سابق چیف اکنامسٹ ڈی ایف آئی ڈی یو کے) کی تکنیکی رہنمائی میں تیار کی گئی ہے، ایک جامع حکمت عملی ہے جس کا مقصد صنعتی بحالی
پیداواری صلاحیت میں اضافہ، اختراعات کو فروغ دینا، اور جامع ترقی کو ممکن بنانا ہے۔ہارون اختر خان نے زور دیا کہ یہ پالیسی محض نظریاتی نہیں، بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ہے۔انہوں نے کہا کہ نیشنل انڈسٹریل پالیسی تمام سٹیک ہولڈرز کی اجتماعی سوچ اور وزیراعظم کے اس عزم کی نمائندہ ہے کہ پاکستان کو ایک نئے صنعتی دور میں داخل کیا جائے۔