حکومت 40 ہزار روپے سے کم آمدن والے افراد کو دو ہزار روپے ماہانہ سبسڈی دے گی، مریم اورنگزیب

اسلام آباد۔3جون (اے پی پی):وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ حکومت 40 ہزار روپے سے کم آمدن والے افراد کو ماہانہ دو ہزار روپے کی سبسڈی دے گی، وزیراعظم محمدشہباز شریف ٹی وی دیکھ کر نہیں عوام کو دیکھ کر پالیسی بناتے ہیں، عمران خان نے پہلے آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا پھر عدم اعتماد کے ڈرے سے معاہدے سے انحراف کیا، ان کے غلط معاہدوں کی وجہ سے آج عوام مشکلات کا شکار ہیں، وزیراعظم نے حکومت سنبھالتے ہی سرمایہ کاروں کے مسائل حل کئے، ملک میں سرمایہ کاری کے لئے بیرونی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کریں گے، ہم ملک سے مافیاز اور کارٹلز کا خاتمہ کریں گے، یہ سخت وقت جلد گذر جائے گا۔

جمعہ کو یہاں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ہمارے لئے بہت آسان تھا کہ ملک کو بحرانوں میں چھوڑ کر نگران حکومت کے حوالے کر دیتے، ہمیں اپنی سیاست کو بچانے کا فیصلہ کرنا آسان تھا لیکن ہم نے ذمہ دارانہ سوچ کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ 2013ء میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ 18، 18 گھنٹے تھی، ہم نے اس وقت بھی چیلنج قبول کیا اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر کے دکھایا، ہمیں اس وقت ملکی معیشت کو درست کرنے کا چیلنج درپیش ہے۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کے دور میں ایک سال تک کاروبار بند رہا، کاروباری برادری اور مارکیٹ کنفیوژن کا شکار تھی، کرائے کے ترجمان کہتے تھے کہ ہم آئی ایم ایف نہیں جائیں گے۔ انہوں نے اپنے دور میں پانچ مرتبہ وزیر خزانہ، سات مرتبہ ایف بی آر کا چیئرمین اور چھ مرتبہ سیکرٹری خزانہ تبدیل کیا۔ آج جو مہنگائی پر چیخیں مار رہے ہیں انہیں عمران خان نے کارکردگی کی بنیاد پر وزارتوں سے نکالا، ان کی اہلیت ان کے وزیراعظم کو قبول نہیں تھی تو عوام کیسے قبول کریں گے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ جب معیشت تباہ ہوئی تو انہوں نے کمزور بنیادوں پر آئی ایم ایف کے ساتھ سخت شرائط طے کیں، اس وقت سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ یہ معاہدہ غلط ہے تو انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا، وہ عوام کی بات کر رہے تھے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پارلیمان میں لائی جائیں لیکن عمران خان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر پچھلے دروازے سے دستخط کئے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان آج کہتے ہیں کہ ہم دیکھیں گے، کیا دیکھیں گے؟ معاشی تباہی، غربت، 44 ہزار ارب روپے کا قرضہ، انہیں ”ہم دیکھیں گے” نظم کا مطلب تک نہیں معلوم۔

انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد عوام نے دیکھی، جب انہیں پتہ چلا کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو رہی ہے تو انہوں نے آئی ایم ایف کے معاہدے سے انحراف کرتے ہوئے پٹرول پر غیر قانونی سبسڈی دی جس کے لئے خزانے میں پیسے ہی نہیں تھے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان کے عوام نے ان کے جھوٹ اور منافقت کو دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے لانگ مارچ کیا، ان کے قافلے میں اتنی گاڑیاں تھیں تو وہ ڈی چوک سے کیوں بھاگے؟

وفاقی وزیر نے کہا کہ نالائقوں، نااہلوں، چوروں اور فسادیوں کے خلاف پاکستان جاگ اٹھا ہے، اب نظمیں لگا کر اور جھوٹ بول کر عوام کو بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ مہنگائی، بے روزگاری، بدتمیزی، بدتہذیبی، افراتفری، فساد، 44 ہزار ارب کا قرضہ، 16 فیصد مہنگائی، ایک کروڑ لوگوں کو بے روزگار کرنا یہ سب عمران خان کے تحفے ہیں۔ آٹے کی قیمت 35 روپے سے 90 روپے کلو ان کے دور میں ہوئی، آج پورے ملک کے یوٹیلٹی سٹورز میں آٹا 400 روپے فی تھیلا مل رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے آٹے کی قیمت خود طے کرتے ہیں، آٹھ سال سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وہاں آٹے کی قیمت کا تعین بھی اسی نے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب نے خیبر پختونخوا کو دو لاکھ ٹن آٹا خرید کر دینے کی پیشکش کی تاکہ وہاں بھی آٹے کی قیمت میں کمی ہو۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف پورے ملک کے وزیراعظم ہیں، وہ پورے ملک کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وفاق کی ایک اکائی نے خیبر پختونخوا کی پولیس کو پنجاب اور وفاق کی پولیس سے لڑایا، عمران خان کی ایماء پر یہ سب کچھ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام اب عمران خان کی جھوٹ، منافقت اور گالیوں کی سیاست سے تنگ آ چکےہیں، پاکستان کے عوام جاگ اٹھے ہیں۔

مریم اورنگزیب نے کہا کہ شوکت ترین کی آخری پریس کانفرنس تھی کہ 30 روپے پٹرول کی قیمت ہر ماہ بڑھانی ہے، 17 فیصد جی ایس ٹی لگانا ہے، خدا را اب جھوٹ نہ بولیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ شخص جو آج مہنگائی پر لیکچر دے رہا ہے وہ کہتا تھا کہ وہ ٹماٹر، آلو، پیاز کی قیمتیں ٹھیک کرنے نہیں آیا۔ انہو ں نے کہا کہ 2018ء میں بجلی کی قیمت 11 روپے فی یونٹ تھی، عمران خان کے دور میں بجلی کی فی یونٹ قیمت 26 روپے پر پہنچی، انہوں نے گیس 600 روپے سے 1400 روپے تک پہنچا دی، گھی کی قیمت 150 روپے تھی جو ان کے دور میں 550 روپے تک پہنچی۔

انہوں نے کہا کہ آج ایک شخص کالے چشمے پہن کر جھوٹ بول رہا ہے، مہنگائی پر بات کرنے والوں نے مہنگائی کو 3 فیصد سے 16 فیصد تک پہنچایا۔ ہم پٹرول 87 روپے فی لٹر پر چھوڑ کر گئے تھے، ڈالر کا ریٹ 115 روپے تھا۔ آج ہمیں عمران خان کے طے شدہ آئی ایم ایف پروگرام کی پاسداری کرنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ پٹرول مہنگا کریں گے تو ہماری سیاست متاثر ہوگی لیکن ہم نے ملک کے مفاد کو مقدم رکھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے پٹرول کی قیمتیں بڑھانے سے پہلے ریلیف پیکیج تیار کرنے کا کہا، جس کی تنخواہ 40 ہزار سے کم ہے، اسے ماہانہ دو ہزار روپے کی سبسڈی ملے گی، چالیس ہزار سے کم آمدن والے افراد 786 پر کال کر کے سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو ریلیف کی فراہمی کے بعد پٹرول کی قیمت میں اضافہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کو بھی دو ہزار روپے دیئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم معیشت کو درست سمت میں ڈھال رہے ہیں، ہم نے پہلے بھی کر کے دکھایا ہے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ وزیراعظم نے کفایت شعاری کے حوالے سے تمام وزارتوں اور کابینہ سے سفارشات مانگ لی ہیں، ہماری نیت ٹھیک ہے اور ملک کی معاشی حالت درست کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں، ہم معیشت کو درست کر کے دکھائیں گے۔ دورہ ترکی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ترک سرمایہ کاروں سے ملاقات کر کے معلوم ہوا کہ پچھلے چار سال کے دوران ان کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئیں، جو اپنا سرمایہ لے کر ہمارے ملک آئے انہیں نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈالا گیا، انہیں دفاتر کے چکر لگوائے گئے، وہ دردر پھرتے رہے۔

انہوں نے کہا کہ ان نالائقوں نے آج ہمارے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے سرمایہ کاروں کے چار سال کے مسائل دو دن میں حل کئے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں عوام کی فکر اور سوچ رکھنے والی قیادت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کا جینا مرنا پاکستان میں ہے لیکن ان کے بیٹے کہاں رہتے ہیں؟ اخلاقیات کی تیسری انگلی عمران خان پر اٹھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے چار سال کے دوران سستی شہرت، سستی سیاست، سستے بیانیوں نے ملک کو تباہ کیا، لوگوں کو بے روزگار کیا، غریب کو مزید مفلس کیا، معیشت تباہ کی، ان کا ڈالا ہوا گند ہم صاف کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کو عوام مسترد کر چکی ہے، اب وہ تین صدیاں بھی کنٹینر پر کھڑے رہیں تو ڈی چوک کے بھگوڑے کے ساتھ کوئی نہیں آئے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شوکت ترین اپنی کئی پریس کانفرنسوں میں کہہ چکے تھے کہ پٹرول کی قیمت 30 روپے فی لٹر ہر مہینے بڑھے گی، 17 فیصد جی ایس ٹی لگے گا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ سخت معاہدہ کیا، تحریک عدم اعتماد کے ڈر سے انہوں نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔ ان کا خیال تھا کہ پٹرول سستا کریں گے تو عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان نے معیشت کے ساتھ تماشے کئے، وہ اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پہلے عوام کو ریلیف دیا، پھر پٹرول کی قیمت بڑھائی، ناراض سرمایہ کاروں کو راضی کر کے واپس سرمایہ کاری کروائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے دور میں سی پیک کا ایک منصوبہ نہیں آیا، سی پیک اتھارٹی کی چار سال میں ایک میٹنگ تک نہیں ہوئی، جو منصوبے چل رہے تھے وہ بند ہو گئے، چین، ترکی، سعودی عرب، قطر ہم سے ناراض ہوئے اس کی وجہ صرف ایک شخص کی ضد، انا اور تکبر تھی۔ آج وہ شخص کہتا ہے کہ میں اس کرسی پر نہیں رہوں گا تو پورے ملک کو آگ لگا دوں گا، ان لوگوں کو شرم آنی چاہئے، ان کی وجہ سے ملک آج مشکل ترین حالات سے گذر رہا ہے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف ٹی وی دیکھ کر پالیسی نہیں بناتے بلکہ عوام کو دیکھ کر پالیسی ترتیب دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان کے پاس اب موقع ختم ہو گیا ہے، اب ان کی بات کوئی نہیں سنتا، وزارت خزانہ سے فارغ ہونے والے سابق وزراء بھی تھوڑی بہت شرم کریں، اگر ان پر یقین ہوتا تو عمران خان انہیں وزارتوں سے نہ نکالتے۔

وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ شہباز شریف نے کفایت شعاری اور کٹوتیوں کے حوالے سے واضح کر دیا ہے، ہم نعرے نہیں لگائیں گے بلکہ کفایت شعاری کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھینسوں، کٹوں، انڈوں، مرغیوں اور بکریوں سے معیشت نہیں ٹھیک کریں گے، کفایت شعاری کے ذریعے وہ تمام اقدامات اٹھائے جائیں گے جن سے پٹرول بل پر بوجھ کم ہو سکے۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ کالعدم تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات اکتوبر 2021ء میں حکومتی سطح پر شروع ہوئے جن میں افغان حکومت سہولت فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بات چیت میں سول اور ملٹری نمائندگی موجود ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آج سیز فائر کا اعلان ہوا جس کا ہم حکومتی سطح پر خیرمقدم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا دائرہ کار آئینی ہے، مذاکراتی کمیٹی آئین کے مطابق جو بھی فیصلہ کرے گی، وہ حکومت اور پارلیمان کی منظوری سے ہوگا۔

ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ نیشنل بزنس کونسل، ایڈوائزری کونسل، بزنس کمیونٹی اور کاروباری حلقوں کی نیشنل کانفرنس وزیراعظم ہائوس میں منگل کو ہو رہی ہے جس میں چارٹر آف اکانومی کو حتمی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس میں تمام سیاسی جماعتوں کو شامل کرنے کا مرحلہ شروع ہو رہا ہے تاکہ آئندہ عمران صاحب کی شکل میں کوئی سیاستدان اپنے سیاسی اور ذاتی فائدے کے لئے معیشت کے ساتھ کھلواڑ نہ کر سکے۔ اس میں ریڈ لائنز بھی ڈرا کی جائیں گی تاکہ کوئی بھی حکومت ہو ان ریڈ لائنز کو کراس نہ کر سکے۔

ایک سوال پر وفاقی وزیر نے کہا کہ سابق دور کے کرائے کے ترجمان آئے اور کچھ بریف کیس اٹھا کر چلے گئے، سابق دور میں ایسٹ ریکوری یونٹ کا سربراہ کیمرہ لگا کر دیکھتا تھا کہ جیل میں شہباز شریف کو نماز کے لئے کرسی نہ مل جائے، اس کام کے لئے ایک پورا دفتر بنایا ہوا تھا جہاں ایک شخص شہزاد اکبر یہ دیکھتا تھا کہ شہباز شریف کو کیا کھانا مل رہا ہے لیکن دوسری جانب جب شہباز شریف وزیراعظم بنے تو انہوں نے سابق وزیراعظم کی سکیورٹی پر نظرثانی کی۔ انہیں جتنی سکیورٹی چاہئے تھی وہ دی گئی۔ عمران خان نے ایک جلسے میں کہا کہ میری جان کو خطرہ ہے، اس کے بعد ان کی سکیورٹی کا دوبارہ جائزہ لیا گیا، وزارت داخلہ کو مراسلہ بھیجا گیا، ان کی سکیورٹی کو فول پروف بنایا گیا۔

ایک سوال پر وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاک ترک سفارتی تعلقات کے 75 سال پورے ہونے پر ترکی میں پورے ملک میں اشتہارات کی مہم چلائی گئی لیکن ہم نے صرف وزارت اطلاعات کے تحت مہم چلائی۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ عمران خان آئین شکن ہیں، 11 اپریل کو آئین شکنی پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، اس کے بعد عمران خان نے لانگ مارچ کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ڈی چوک آنے کا اعلان کیا، عمران خان اپنے دور میں اختیارات کا ناجائز استعمال بھی کرتے رہے، دوست ملک سے سرمایہ کار یہاں آئے اور انہیں نیب کے ذریعے جیلوں میں ڈالا گیا، انہوں نے جان بوجھ کر ایسے فیصلے کئے، اس سے بڑھ کر ملک کے ساتھ غداری کیا ہوگی۔