اسلام آباد۔4مارچ (اے پی پی):صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ مجھے آئین پاکستان استثنا دیتا ہے مگر میں یہ استثنیٰ نہیں لینا چاہتا،آئین پاکستان کا پابند ہوں، قرآن پاک اس سے بڑا آئین ہے،کیسز طویل عرصہ چلتے رہتے ہیں اور اس دوران گواہ انتقال کر جاتے ہیں، کاغذات کھو جاتے ہیں اور یادداشتیں ختم ہو جاتی ہیں، میں تمام عدلیہ سے بھی درخواست کروں گا کہ فیصلے بروقت ہوں۔
جمعہ کو ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کےمطابق صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی صدارتی استثنا نہ لیتے ہوئے انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش ہوئے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج محمد علی وڑائچ نے سماعت کی ۔
صدر مملکت 2016 کے اپنے خلاف اسلحہ کیس میں عدالت میں حاضر ہوئے ۔ صدر مملکت نے صدارتی استثنا نہ لے کر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی درخواست کی تھی ۔ مشیر برائے پارلیمانی امور ظہیر الدین بابر اعوان بطور وکیل عدالت میں پیش ہوئے۔صدر مملکت بابر اعوان کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے ۔
اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر مملکت نے کہا کہ میں پاکستان میں ایک نظیر قائم کرنا چاہتا ہوں۔میں صدارتی استثنا ختم کرانا چاہتا ہوں اس لیے پیش ہوا۔ انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں پاکستان میں سب عدالتوں کا احترام کریں۔
جب تک امیر غریب سب برابر نہیں ہوں گے انصاف نہیں ہوگا۔ میں تمام عدلیہ سے بھی درخواست کروں گا فیصلے بروقت ہوں۔ یہاں مقدمات نسلوں کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔ صدر مملکت نے کہا کہ کیسز طویل عرصہ چلتے رہتے ہیں، اس دوران گواہ مر جاتے ہیں، کاغذات کھو جاتے ہیں اور یادداشتیں ختم ہو جاتی ہیں۔
میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی، جتنے خلفا آئے وہ عدالتوں میں بڑے باوقار انداز سے پیش ہوئے، استثنا کی گنجائش نہیں، آئین پاکستان کا پابند ہوں، قرآن پاک اس سے بڑا آئین ہے۔
مجھے آئین پاکستان استثنا دیتا ہے مگر میں یہ استثنا نہیں لینا چاہتا۔ 2016میں مجھ پر الزام عائد کیا گیا تھا، اسی عدالت سے ضمانت بھی لی تھی۔
صدر مملکت عارف علوی اپنی گاڑی خود چلا کر عدالت سے واپس روانہ ہوئے۔صدر کی آمد سے پہلے کوئی اضافی سکیورٹی، نفری یا روٹ نہیں لگایا گیا۔