خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کے حقوق کا تحفظ پاکستان کی ترقی کا مرکزی ستون ہے،وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا او آئی سی کی ویمن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی وزارتی کونسل کے غیر معمولی اجلاس سے خطاب

193

اسلام آباد۔16فروری (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہے کہ خواتین کو بااختیار بنانا اور ان کے حقوق کا تحفظ پاکستان کی ترقی کا مرکزی ستون ہے۔ آئینِ پاکستان مرد اور عورت دونوں کو اسلامی احکامات کی روشنی میں بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور امتیازی سلوک اور استحصال کے خلاف خاص طور پر خواتین کو ضمانت فراہم کرتا ہے۔

انہوں نے یہ بات بدھ کو آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن( او آئی سی)کی ویمن ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن (ڈبلیو ڈی او) کی وزارتی کونسل کے تیسرے غیر معمولی اجلاس میں آن لائن شرکت کے دوران کہی ۔اجلاس میں شرکت کیلئے انہیں مصر میں ڈبلیو ڈی او کی وزارتی کونسل کی چیر اور نیشنل کونسل برائے خواتین کی صدر کی جانب سے خصوصی دعوت دی گئی تھی۔

بدھ کو وزارت انسانی حقوق کی جانب سے جاری پریس ریلیز کے مطابق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ اس فورم نے خواتین کی ترقی سے متعلق بامعنی مذاکرات کے لیے اہم موقع فراہم کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق سے متعلق متعدد بین الاقوامی معاہدوں کا بھی دستخط کنندہ ہے جن میں انسانی حقوق کی یونیورسل ڈیکلریشن، بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق کنونشن اور پائیدار ترقیاتی اہداف شامل ہیں۔ حکومت پاکستان نے خواتین پر تشدد، ہراساں کرنے، معاشی خود مختاری اور وراثت سے متعلق قانون سازی کو مضبوط بنانے کی جانب ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

حال ہی میں کام کی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کئے جانے کے خلاف تحفظ کا ترمیمی ایکٹ2022 نافذ کیا گیا ہے جس کا مسودہ وزارت انسانی حقوق نے خواتین کے حقوق کے گروپس اور وکلاء کی رائے کے ساتھ تیار کیا ہے۔

اس قانون سازی میں خاص طور پر گھریلو ملازمین بھی شامل کیے گیے ہیں جو عام طور پر کام کی جگہ پر ہونے والے تشدد اور ہراسانی کے خطرے سے زیادہ دوچار ہوتے ہیں۔انہوں نےکہا کہ خواتین کے پارلیمانی کاکس، عدالتوں میں انسانی حقوق کے سیل، خواتین تھانوں، ملک گیر ہیلپ لائنز، وقار نسواں پر قومی اور صوبائی کمیشن، خواتین کےصوبائی ترقیاتی محکموں اور ڈائریکٹوریٹس کے ساتھ ساتھ خواتین کے بینک اور قومی انسانی حقوق کے شکایت سیل کا قیام خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لئے پاکستان میں ادارہ جاتی فریم ورک کی طرف چند کامیاب پیشرفت سمجھی جاتی ہیں۔

وفاقی وزیر نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے نہایت اہم سوشل پروٹیکشن پروگرام کا مقصد خواتین کی مالی شمولیت اور معاشی طور پر بااختیار بنانے کو یقینی بنانا ہے۔ کفالت پروگرام سے تقریبا 8 ملین خواتین کو مالی خودمختاری اور ڈیجیٹل شمولیت مہیا کی گئی ہے، حکومت نے افرادی قوت میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لیے پبلک سیکٹر ایمپلائمنٹ میں خواتین کے لیے کم از کم 10 فیصد کوٹہ کا اعلان کیا ہے اور کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق ہمارا نیشنل ایکشن پلان صنعتی ورکنگ کنڈیشنز کو بہتر بنانے، خواتین لیبر کی شرکت اور محفوظ ورکنگ مواقع مہیا کرنے پر خصوصی توجہ مرکوز رکھنے کے لیے ایک اور سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوویڈ 19 کی عالمی وبا نے مستقبل کی تشکیل میں خواتین کے عالمی سطح پر اہم کردار کو اجاگر کیا ہے۔ تاہم، عالمگیر وبا نے غیر متناسب بوجھ کو بھی نمایاں کیا ہے جس کا مقابلہ خواتین صحت عامہ اور خاص طور پر معاشی ہنگامی صورتحال کے دوران کرتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں خواتین پر گھریلو تشدد، بے روزگاری اور غربت کے واقعات میں بھی تشویشناک اضافے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ہماری وزارت نے ملک بھر میں میڈیا مہمات چلا کر لاک ڈاوٴن کے دوران گھریلو تشدد کو ختم کرنے کو خصوصی ترجیح دی اور ہماری ہیلپ لائن میں ایک خصوصی ضابطہ شامل کیاگیا تاکہ متاثرین جرائم کے مرتکب افراد کی موجودگی میں بھی گھریلو تشدد کی اطلاع دے سکیں۔

انہوں نے مزید زور دیا کہ اگراس وقت بھارتی غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر میں خواتین اور بچوں اور بھارت میں مسلم خواتین پر ہونے والے تشدد اور ظلم و ستم کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو یہ مناسب نہ ہو گا. انہوں نے مطالبہ کیا کہ او آئی سی کو بی جے پی کی ہندتوا حکومت کے تحت بڑھتے ہوئے عدم برداشت کے رجحانات والے بھارت میں مسلمان خواتین کے خلاف اس تشدد کے خلاف کارروائی کے لئے اقدام کرنا ہوں گے اور بحیثیت امت ہمیں مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا کا بھی موثر انداز میں جواب دینا ہوگا۔

اپنے اختتامی کلمات میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ ہم صنفی مساوات کے بغیر پائیدار معاشی ترقی، امن یا خوشحالی کو موثر طریقے سے حاصل نہیں کرسکتے۔

انہوں نے اسلامی ممالک میں صنفی مساوات کو بہتر کرنے کے اقدامات اور توجہ پر منتظمین کا شکریہ ادا کیا اور خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے آگے بڑھنے کی امید کا اظہار کیا۔