خواتین کے حقوق کا تحفظ اور فروغ پاکستان کی ترقی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے،اقوام متحدہ کے کمیشن برائے وقار نسواں کے 66ویں اجلاس کے دوران وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کا خطاب

80

اسلام آباد۔16مارچ (اے پی پی):وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا ہےکہ خواتین کے حقوق کا تحفظ اور فروغ پاکستان کی ترقی کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان کا آئین ہر قسم کے امتیازی سلوک، استحصال اور پسماندگی کے خلاف مرد و خواتین دونوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے اور ان کے مساوی حقوق، ترقی، صحت مند و خوشحال زندگی گزارنے کے مواقع کو یقینی بناتا ہے۔ مغرب میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کا باعث بن رہی ہے۔ عالمی برادری کو اس مسئلے سے نمٹنا چاہیے ۔ انھوں نے یہ بات بدھ کو اقوام متحدہ کے کمیشن برائے وقار نسواں کے 66 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی ۔

ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ اسلام خواتین کے حقوق کو ان کی زندگی کے ہر شعبے میں یقینی بناتا ہے ۔ انھوں نے قرآن مجید کی سورۃ البقرہ کی آیت کا حوالہ دیا جس میں فرمایا گیا ہے کہ: "اور عورتوں کے لیے مردوں پر وہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔” وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان نے صنفی مساوات اور انسانی حقوق کے لیے کئی اہم بین الاقوامی وعدوں کو بھی اپنایا ہے جس میں انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ، بیجنگ پلیٹ فارم فار ایکشن، خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے اور پائیدار ترقی کے اہداف شامل ہیں۔

انھوں نے کہا کہ حکومت پاکستان نے خواتین کے خلاف تشدد، گھریلو زیادتی، ہراساں کیے جانے، سماجی تحفظ، معاشی شراکت اور وراثت جیسے مسائل سے نمٹنے کے لیے قانون سازی کو مضبوط بنانے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ کام کی جگہ پر خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف حال ہی میں منظور شدہ تحفظ (ترمیمی) ایکٹ، 2022 ہراسگی کی تعریف کو وسیع کرتا ہے اور خاص طور پر گھریلو ملازمین کو شامل کرتا ہے جو عام طور پر کام کی جگہ پر تشدد اور ہراساں کیے جانے کے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کاروبار اور انسانی حقوق سے متعلق قومی ایکشن پلان صنعتی کام کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے ایک اور سنگ میل ہے، جس میں خواتین کی مزدوری میں شرکت اور کام کے محفوظ حالات پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ ہماری حکومت کا انفورسمنٹ آف ویمنز پراپرٹی رائٹس ایکٹ، 2020 خواتین کی ملکیتی منقولہ و غیر منقولہ دونوں جائیدادوں کی ملکیت اور اونرشپ کے حقوق کو یقینی بناتا ہے نیز یہ بھی یقینی بناتا ہے کہ اس طرح کے حقوق کو ہراسگی ، زبردستی یا دھوکہ دہی کے ذریعے پامال نہ کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ خواتین کو پیشہ ورانہ مہارتوں سے آراستہ کرنا ہماری حکومت کی ترجیح رہی ہے۔

صرف اسلام آباد میں ویمن ویلفیئر اینڈ ڈویلپمنٹ سینٹر نے 20 ہزار خواتین کو پیشہ ورانہ اور تکنیکی مہارتوں کی تربیت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کی شرکت کو یقینی بنا رہی ہے۔ خواتین کو معاشی طور پر بااختیار بنانے اور سماجی تحفظ کے لیے حکومت کے اہم اقدامات میں خواتین کو سماجی مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا احساس پروگرام بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ وبائی مرض کوویڈ کے دوران ہمارے سماجی تحفظ کے پروگرام کی کامیابی کو پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ دیگر بڑے مالیاتی اقدامات میں یونیورسل ہیلتھ کوریج پروگرام اور مائیکرو فنانس کے مواقع شامل ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان بھی ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا جواب موافقت اور تخفیف کے ذریعے دے رہا ہے۔ اس مقصد کیلئے وزیر اعظم عمران خان نے جنگلات کی بحالی کے پروگرام، کلین گرین پاکستان تحریک اور موسمیاتی تبدیلی پر پہلے صنفی ایکشن پلان پر خصوصی توجہ دی ہے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھارت کے غیرقانونی زیرقبضہ جموں و کشمیر پر اجلاس کی توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کی بھی یہ ذمہ داری اور فرض ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر پر ناجائز قبضے کے تکلیف دہ اور تباہ کن انسانی حقوق کے نتائج کو تسلیم کرے۔

انھوں نے کہا کہ خواتین کو بھارتی قابض افواج کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے جنہوں نے عصمت دری کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور خواتین اور بچوں پر پیلٹ گن سے حملہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ جہاں انسانی حقوق کے معیارات لاگو ہوتے ہیں وہاں ہم سلیکٹو نہیں ہو سکتے۔ انھوں نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ مغرب میں اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتی ہے اور مواقع سے انکار کرتی ہے، خاص طور پر اس لیے کہ اگر وہ محض سر ڈھانپتی ہیں تو انہیں تعلیم اور صحت سے محروم رکھا جاتا ہے۔

اس امتیازی سلوک سے عالمی برادری کو بھی نمٹنا چاہیے۔ ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ پاکستان اس بات پر پختہ یقین رکھتا ہے کہ معاشی و پائیدار ترقی، امن اور خوشحالی صرف خواتین کو بااختیار بنانے اور صنفی مساوات کی بنیاد پر استوار ہو سکتی ہے۔ ہم اپنی لڑکیوں اور خواتین کے لیے فیصلہ سازی اور عوامی زندگی میں مساوی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے ایک قابل اور محفوظ ماحول بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔