خیبرپختونخوا میں ماحول دوست سیاحتی منظر نامہ، چیلنجز اور مواقع

رپورٹ: محمد عامر آفریدی، پشتو سروس

ترجمہ: جنت گل

سياحت (ٹوارزم) تعمیری امور، سکون یا خوشی کی خاطراپنے گھرسے دور وقت گذار نے کے عمل کو کہتے ہیں لیکن موجودہ دور میں سیاحت صرف سکون او خوشحالی کا سبب نہیں رہا بلکہ یہ کسی ملک،علاقے یا افراد کےلئے آمدن کا بہت بڑا ذریعہ بھی بن چکا ہے۔ عصر حاضر میں سیاحت کا کمرشل استعمال کیا جاتا ہے او کسی ملک کی اقتصادیات میں اس کا اہم حصہ ہوتاہے۔ سیاحت کا کمرشل استعمال مغربی یورپ میں 17ویں صدی میں شروع ہوا تھا اور 21ویں صدی کے شروع میں عالمی سیاحت کوعالمی اقتصادیات کا ایک اہم ذریعہ قراردیا گیا ہے۔ سیاحت میں یونان اور روم زیادہ اہمیت کے حامل ممالک ہیں جہاں پر سیاحت کے پرانے اثار موجود ہیں او دنیا کے سات عجائب سیاحتی مقامات قرار دئیے گئے ہیں۔ بدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کا عمل آج سے 2000 سال پہلے شروع ہوا تھا اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاحت کی تاریخ کتنی قدیم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ عمل انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوگیا ہو کیونکہ انسان قدرتی حسین مقامات کے ساتھ فطری محبت رکھتا ہے۔

معیشت میں سیاحت کا اہم حصہ ہونے کی بناء پر اب اس شعبہ نے ایک صنعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے او دنیا کے بے شمار ممالک اس صنعت سے اچھی طرح استفادہ کررہے ہیں ان ممالک میں میکسیکو،سپین، اٹلی، ترکی، چین، آسٹریلیا، سعودی عرب، جرمنی، برطانیہ اور امریکا سر فہرست ہیں۔ ويژول کيپیٹليسٹ ویب سائیٹ کے مطابق پوری دنیا میں سیاحت کی صنعت 330 ملین ملازمت کے مواقع فراہم کررہی ہے۔یہ صنعت دس فیصد شرح کے حساب سے دنیا کی جی ڈی پی میں ہر سال8.9 ارب ڈالر کا حصہ ڈال رہی ہے۔ دنیا کے 44 ممالک کی معیشت میں سیاحت کی صعنت کا 15 فیصد حصہ ہے اور ملازمت کے مواقع پیدا کرنے کے حوالے سے ایک اہم صنعت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ نیوزی لینڈ میں یہ صنعت 479000 افراد کو ملازمتیں فراہم کررہی ہے اسی طرح کمبوڈیا میں سیاست کا شعبہ 2.4 ملین لوگوں کو رزگار فراہم کررہا ہے۔عصر حاضر میں سیاحت صرف مقدس یا دلکش مقامات کی سیر کرنے کی حد تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ صنعت بے شمار اقسام میں تقسیم ہوچکی ہے جس کی کئی مشہور اقسام میں ماحولیاتی ٹوارزم، تاریخی ٹوارزم، کلچرل ٹورازم، ایڈوینچر ٹورازم، ہیلتھ ٹورازم، مذہبی ٹورازم، ویلج ٹورازم اور جنگلی حیات ٹورازم نمایاں ہیں۔

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان میں ان ساری اقسام سے استفادہ کیا جاسکتا ہے او ہمارے ملک میں سیاحت کےوسیع مواقع موجود ہیں۔ پاکستان ایک طرف سیاحت کیلئے خوبصورت مقامات کا حامل ہے تو دوسری طرف مذہبی سیاحت کیلئے مقدس مقامات بھی موجود ہیں۔ کیونکہ یہ خطہ مختلف تہذیبوں کا مسکن بھی رہ چکا ہے یہاں بدھ مت کے قدیم آثار موجود ہیں۔ پاکستان مختلف ثقافتوں کے امتزاج کا ایک حسین گلدستہ ہے پاکستان میں ہر خطہ میں بسنے والے اپنی علیحدہ ثقافت رکھتے ہیں، چترال کی وادی کیلاش کے قبیلے کا کلچر دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اگر ہم بلند و بالا پہاڑوں کی سیاحت کی طرف توجہ کریں تو ہم اونچے اونچے پہاڑوں کا ایک سلسلہ رکھتے ہیں، دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کا نام “کے ٹو” ہے جو پاکستان میں موجود ہے اگر ہم گلیشيئرز کی طرف متوجہ ہوں تو یہ بھی پاکستان میں موجود ہیں پاکستان میں ساحل سمندر کی ایک وسیع پٹی بھی موجود ہے ہمارا ملک آبشاروں کا ایک حسین امتزاج بھی رکھتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں گذشتہ ادوار میں سیاحت کے شعبہ کو اس طرح خاص توجہ نہیں دی گئی تھی جس طرح دی جانی چاہیے تھی لیکن موجودہ حکومت کے دور میں ایک امید پیدا ہوگئی ہے کہ یہ شعبہ بھی اچھی ترقی کرے گا۔ پاکستان تحریک انصاف حکومت کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی وزیراعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں سیاحت کی فروغ کیلئے اقدامات اٹھانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم اس شعبہ کوترقی اور سہولیات دیں تو یہ ملک کی معاشی پیداوار کیلئے اہم ذریعہ بن سکتا ہے موجودہ حکومت نے عالمی سیاحوں کوسہولت کی فراہمی کیلئے بھی اقدامات کئے ہیں اسی طرح وزیراعظم عمران خان نے اس صنعت کو درپیش مسائل کے حل کیلئے او صنعت کی ترقی کیلئے نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی بھی بنائی ہے اس کمیٹی میں وزیراعظم کے اووسیز پاکستانیز اور انسانی وسائل کی ترقی کیلئے معاون خصوصی کنوینئر کے طور پر شامل ہیں، وفاقی اور صوبائی نمائندوں پر مشتمل کمیٹی کے ذمہ داریوں میں نیشل ٹوارزم سٹرٹیجی کے عملدرآمد کا جائزہ لینا او صوبائی یا علاقائی سطح پر مختلف اقدامات نیشنل سٹرٹیجی اینڈ ایکشن پلان کے ساتھ ہم آہنگ کرنا شامل ہیں۔ ملک کے اندر سیاحتی مقامات کی جیو میپنگ، سیاحتی سہولیات اور خدمات کا جائزہ لینا بھی اس کمیٹی کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔ مقامی سطح پر سیاحت کے فروغ کیلئے حمکت عملی تیار کرنے کی ذمہ داری بھی کمیٹی کے سپرد کی گئی ہے۔ کمیٹی سیاحت کے حوالے سے افرادی قوت کی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے اقدامات بھی تجویز کرے گی۔

کوویڈ-19 وبا کی وجہ سے ملک کے دوسرے شعبوں کی طرح سیاحت کے شعبہ پر بھی منفی اثرات پڑے ہیں اور یہ اثرات خیبرپختونخوا میں سیاحت کے شعبہ پر زیادہ دکھائی دیتے ہیں تاہم سیاحت کی صنعت کی بحالی و فروغ کیلئے وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ خیبر پختونخوا کی حکومت بھی کوشاں ہے۔ حال ہی میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ چھوٹے ڈیموں پکنک پوانئٹس بنائے جائینگے۔ سیاحت کے لئے یہ مقامات پورے صوبے میں بنائے جائنگے ابتدائی طور پر پانچ ڈیموں پر پکنک پوائنٹس بنانے کا فیصلہ ہوا جس میں صوابی میں کنڈ ڈیم ، نوشہرہ میں جلوزئی ڈیم ، کوہاٹ میں تھاندہ ڈیم، ہری پور میں چتری ڈیم اور ایبٹ آباد میں جانگڑا ڈیم شامل ہیں۔ ان مقامات پر سیاحوں کو ریسٹورنٹ اور پارکنگ پر مشتمل مختلف سہولیات فراہم کی جائے گی۔ اسی طرح خیبر پختونخوا کی حکومت نے سیاحتی مقاصد کیلئے سفاری ٹرین اور بس سروس کی بھی منظوری دی ہے۔ سفاری ٹرین پشاور سے اٹک اور پشاور سے تخت بھائی تک چلائی جائے گی۔ بس سروس سیاحوں کو پشاور میں سیاحتی سہولیات فراہم کرے گی۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ضلع اپر دیر کمراٹ میں دنیا کے بڑے اور اونچے کیبل کار پراجیکٹ کی بھی منظوری دی ہے جس کی لمبائی 14 کلومیٹر ہے اور اس پراجیکٹ کو 32 ارب روپوں کی لاگت آئے گی اور پانچ ماہ میں مکمل کیا جائے گا اس پراجیکٹ کے ذریعے کمراٹ درہ کو لور چترال مداکلاشٹ درہ کے ساتھ منسلک کیا جائے گا۔ خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی گذشتہ حکومت نے اپنی پانچ سالہ دور میں ایک ارب درخت لگانے کا اہم منصوبہ مکمل کیا ہے جو ماحولیاتی اور جنگلی حیات ٹورازم کے حوالے سے کامیاب اور اہم منصوبہ ہے اسی طرح اب وفاقی حکومت کی طرف سے پورے ملک میں دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ جاری ہے جو موجودہ حکومت کے دور میں مکمل کیا جائے گا۔ اس منصوبے نہ صرف ماحول پر اچھا اثر پڑے گا بلکہ اس کے ساتھ سیاحت بھی فروغ پائے گا۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک طرف کمراٹ سوات ناران چترال ایبٹ آباد صوابی گلیات مالاکنڈ بونیر اور بٹگرام کے علاقے قدرتی خوبصورتی سے مالامال علاقے ہیں تو دوسری طرف ضم شدہ قبائلی علاقہ جات میں بھی خوبصورت سیاحتی مقامات موجود ہیں جس میں ضلع خیبر کا تیراہ درہ ایک مشہور علاقہ ہے جہاں سرسبز اور اونچے اونچے پہاڑ اور دلکش مناظر موجود ہیں لیکن بدقستمی سے گذشتہ ادوار میں یہاں کے انفراسٹرکچر پر توجہ نہیں دی گئی اب تیراہ میں سڑکیں بنانے پر کام جاری ہے اور امن او امان بھی قائم ہے اسلئے سیاحوں کے لئے یہ ایک دلکش مقام ثابت ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اورکزئی کرم، مومند، باجوڑ اور وزیرستان میں بھی سیاحوں کیلئے قابل دید مقامات موجود ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں کی ترقی کی طرف خاص توجہ دی جائے اس کے ساتھ نہ صرف سیاحوں کیلئے نئے مقامات پیدا ہوجائینگے بلکہ مقامی لوگوں کیلئے روزگار کی مواقع بھی پیدا ہوجائینگے اور غربت کے خاتمہ میں بھی مددملے گی۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق سیاحت کا شعبہ خیبر پختونخوا کی معیشت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور یہ شعبہ لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم کرسکتا ہے۔ ۔ خیبر پختونخوا ٹورازم کارپوریشن کے سال 2018 کے جائزے کے مطابق ہر سال صرف گلیات ناران کاغان اور کمراٹ سے تقریبا 300 ملین ڈالر ریونیو حاصل ہوتا ہے۔

خیبر پختونخوا ٹورازم کارپوریشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر سعد بن اویس سے جب اس شعبہ کی مشکلات او ترقی کے بارے میں صوبائی حکومت کی کوششوں کے بارے میںاستفسار کیاگیا تو انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت خیبر پختونخوا کے ہر ضلع میں مقامی سیاحت کو توجہ دے رہی ہے او جن علاقوں میں آثار قدیمہ کے مقامات موجود ہیں وہاں پر ہیریٹیج ٹورازم کو فروغ دیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا مالاکنڈ او ہزارہ ڈویژن میں خوبصورت سیاحتی مقامات کے فروغ کے لئے کام جاری ہے۔

انہوں نے کہا کورونا وباء کی وجہ سے سیاحت کی صنعت کو کم و بیش دس ارب روپے کا تقصان پہنچا ہے جس میں دکانوں اور پیٹرول پمپ وغیرہ کا نقصان شامل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا صوبائی حکومت کے زیر انتظام جتنے بھی ریسٹ ہاﺅسز اور گسیٹ ہاﺅسز ہیں، وہ سارے نجی شعبہ کو لیز پر دئیے جار رہے ہیں٬ جس سے صوبائی خزانہ کو خطیر رقم حاصل ہوگی اس کے علاوہ سفاری ٹرین دوبارہ شروع کرنے سے صوبائی اور وفاقی حکومت کو مالی فوائد حاصل ہونگے۔انہوں نے کہا سیاحتی مقامات میں انفراسٹرکچر اور خاص طور پر سڑکوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اسی طرح مقامی سیاحوں کے علاوہ بین الاقوامی سیاح بھی خیبر پختونخوا کے خوبصورت مقامات کی سیر کرسکیں گے۔ انہوں نے کہا سیاحت کے فروغ کیلئے ہنگامی بنیادوں پر کام جاری ہے٬ کمراٹ سے چترال اور مداکلاشٹ تک کیبل کار کی منظوری، سفاری ٹرین بروغل فیسٹول شروع ہونے کے ساتھ شروع ہوچکے ہیں۔

خیبر پختونخوا کے چترال ضلع کی مشہور کیلاش وادی کے باسی میڈیکل آفیسر ڈاکٹر ولی خان کیلاش خطے کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ قبیلہ سینکڑوں سال سے اس علاقہ میں آباد ہے، انہوں نے کہا کہ کیلاش قبیلہ ایک منفرد ثقافت رکھتا ہے او اس ثقافت کو انہوں نے صدیوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش کلچر کو دیکھنے کیلئے دور دور سے سیاح آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کیلاش میں مختلف قسم کے میلےمنعقد کئے جاتے ہیں جس سے یہاں کے بسنے والوں کی ثقافت کی عکاسی ہوتی ہے۔ہر موسم میں فیسٹول ہوتے ہیں جسے دیکھنے کیلئے پاکستان سمیت دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیلاش میں سب سے بڑا فیسٹول دسمبر کے مہینے میں ہوتا ہے جو اٹھ دسمبر سے 22 دسمبر تک ہوتا ہے٬ دوسرا فیسٹول مئی کے مہینے میں 14 ٬ 15 اور 16 مئی کو ہوتا ہے یہ بہار کا فیسٹول ہوتا ہے جس میں پوری دنیا سے لوگ شرکت کرتے ہیں٬ اس کے علاوہ اگست کی 22 تاریخ کو بھی ایک فیسٹول ہوتا ہے او پھر ستمبر کے آخر میں خزان کے موسم میں ایک فیسٹول ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کیلاش کے لوگ منفرد رسم و رواج رکھتے ہیں جسے دنیا کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہائیکنگ، ٹریکنگ اور کیمپنگ کے بہت سارے مقامات وہاں موجود ہیں اس کے علاوہ مذہبی مقامات بھی دلکش ہیں۔

سوات کے رہائشی جاوید عظیمی کہتے ہیں سوات میں سیاحت کے بہت سارے خوبصورت مقامات موجود ہیں یہاں کا موسم بھی بہت مسحور کن ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا سوات پھلوں اور فصلوں کے لیے بھی مشہور ہے آج کل اخروٹ کا موسم ہے او گرمی کے موسمی پھل ختم ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں گرمیوں اور سردیوں دونوں موسموں میں سیاح آسکتے ہیں٬ یہاں پر ہر طرح کے قدرتی اور خوبصورت مناظر موجود ہیں٬ دریا بھی او آبشاریں بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سوات کا حسن قابل دید ہے او مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو سوات کی سیر سے لطف اندوز ہونا چاہیے۔

اگر ان علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے دوسرے علاقوں میں بھی سیاحت کے شعبہ میں سرمایہ کاری کی جائے تو اس کے بہت اچھے نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ سیاحتی مقامات تک پہنچنے کیلئے رستے سب سے اہم ضرورت ہیں ان خوبصورت مقامات کو سڑکوں کی سہولیات فراہم کرنی چاہیے اسی طرح نجی شعبہ کی طرف سے بھی ان مقامات میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے ان مقامات میں معیاری ہوٹل اور ریسٹورانٹ بنانے کی ضرورت ہے، اس سے سرمایہ کاری کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوںگے اور لوگ سیاحتی مقامات کی طرف بھی راغب ہونگے۔

بشکریہ اے پی پی!