دفعہ144 قانون کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

41
اسلام آباد ہائی کورٹ

اسلام آباد۔10اکتوبر (اے پی پی):اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے دفعہ 144 قانون کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔پیر کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء اسد عمر کی درخواست پر سماعت کے دوران بابر اعوان ایڈووکیٹ عدالت پیش ہوئے، درخواست میں موقف اختیار کیاگیاکہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کےلیے غیرآئینی قانون ہے، برطانوی راج نے یہ قانون بنایا تھا جو آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے،عدالت نے استفسار کیاکہ درخواست گزار اسد عمر دفعہ 144 سے کیسے متاثرہ فریق ہیں؟،

کیا درخواست گزار اسد عمر کو پرامن احتجاج کے لیے اجازت لینے سے کسی نے روکا ؟،جس پر وکیل نے بتایاکہ اسد عمر پی ٹی آئی کے رہنما ہیں جو بہت سیاسی سرگرمیاں کررہی ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ دھرنا کیس میں سپریم کورٹ نے طے کردیا پرامن احتجاج کے لیے اجازت لینا ہوگی،اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی؟،لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ ایگزیکٹو نے دیکھنا ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی،کیا پی ٹی آئی کی دو صوبوں میں حکومت نہیں ہے جہاں دفعہ 144 کا اطلاق ہوتا ہے؟ ،

جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا ؟،امن و امان برقرار رکھنا انتظامیہ کا کام ہے عدالت مداخلت نہیں کرے گی،وکیل نے کہاکہ یہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ سابق ایم این اے کی درخواست ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ یہ سابق رکن اسمبلی کی درخواست نہیں، پٹیشنر اب بھی ممبر قومی اسمبلی ہیں،وکیل نے کہاکہ میں آپ سے اختلاف نہیں کر سکتا مگر تصحیح ضرور کر سکتا ہوں،چیف جسٹس نے کہاکہ جب تک استعفی منظور نہیں ہوتا، تب تک وہ رکن اسمبلی ہیں،بابر اعوان ایڈووکیٹ نے کہاکہ اگر آئین سے متصادم کوئی قانون بنے تو عدالت اسے کالعدم قرار دے سکتی ہے،

چیف جسٹس نے کہاکہ اگر آپ نے ریلی نکالنی ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں،چیف جسٹس نے کہاکہ پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں، آپ پہلے ان صوبوں میں جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کرائیں،صوبائی اسمبلیوں سے قانون ختم کرا کے یہاں آ جائیں،وکیل نے کہاکہ پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے،قانون میں لکھا ہوا ہے جس سے باہر نہیں جا سکتے،ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ سات دن یا مسلسل دو دن یہ قانون نافذ رہ سکتا ہے،دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔