اسلام آباد۔8دسمبر (اے پی پی):فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی ریجنل کمیٹی برائے خوراک کے کنوینر شاہد عمران نے کہا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے غذائی عدم تحفظ، موسمیاتی تبدیلیوں، آبادی میں اضافے اور سست رفتار اقتصادی ترقی سے پاکستان بھی متاثر ہورہا ہے۔ اتوار کو یہاں سابق نائب صدر ایف پی سی سی آئی چوہدری زاہد اقبال آرائیں کی قیادت میں وہاڑی سے صنعتکاروں کے ایک وفد سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس خطرے سے بروقت نمٹنے کے لیے ملکی اور عالمی دونوں محاذوں پر فوری اور کثیر جہتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پائیدار زرعی طریقہ ہائے کار پر توجہ دینی چاہیے،
موسمیاتی لحاظ سے لچکدار فصلوں، جدید آبپاشی نظام اور کسانوں کی تعلیم و تربیت میں سرمایہ کاری سے پیداواری صلاحیت کو بڑھایا اور شدید موسمی خطرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پالیسی سازوں کو فصلوں کے تنوع پر توجہ دینی چاہیے تاکہ گندم اور چاول کی ایسی اقسام پر انحصار کو کم کیا جا سکے جن کو زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 1999 میں گارڈ ایگریکلچر ریسرچ اینڈ سروسز لمیٹڈ کی طرف سے تیار کردہ چاول کے مختلف قسم کے ہائبرڈ بیجوں کا استعمال کرتے ہوئے کامیابی کے ساتھ بہترین پیداوار کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ شاہد عمران نے کہا کہ علاقائی اور عالمی شراکت داری کو مضبوط بنانا بھی ضروری ہے۔
ہم سارک جیسے علاقائی اتحاد سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں تاکہ باہمی تعاون پر مبنی فوڈ سکیورٹی فریم ورک تیار کیا جا سکے اور وسائل کے اشتراک اور موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے ابتدائی انتباہی نظام قائم کیا جا سکے۔ ایف اے او اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے ساتھ منسلک ہو کر تکنیکی مہارت اور مالی معاونت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ اسٹوریج، نقل و حمل اور تقسیم کاری کے بہتر انتظام سے خوراک کے ضیاع کو کم اور اس بات کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ خوراک صارفین تک پہنچ جائے۔ شاہد عمران نے کہا کہ سماجی تحفظ کے نیٹ ورکس اور سبسڈی والے فوڈ سکیورٹی پروگرامز کمزور آبادی کے تحفظ میں مدد کر سکتے ہیں۔
پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دے کر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کیا کہ اچھی فیصلہ سازی اور عالمی برادری کے ساتھ مل کر پاکستان اپنے غذائی تحفظ کے چیلنجوں کو کم کر سکتا ہے اور وسیع تر علاقائی استحکام میں کردار ادا کر سکتا ہے۔