اسلام آباد۔28جون (اے پی پی):وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نےکہاہے کہ دور حاضر میں ہمیں طاقت کے خطرات، غیر ملکی مداخلت، غلامی، نفرت انگیز نظریات، غربت، عدم مساوات، عالمی تناؤ، فوجی اتحاد اور جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا سامنا ہے، اپنی کمیونٹیز کے تحفظ اور اپنی قوموں کی سلامتی کے لئے بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا ہماری اجتماعی کاوش اور ترجیح ہونا چاہیے ۔ وہ اقوام متحدہ جنرل اسمبلی میں یواین کوپس کے خصوصی اجلاس کی صدارت کے دوران خطاب کررہے تھے۔
وزیرداخلہ نے عالمی و علاقائی تنازعات وتشدد روکنے اور امن برقرار رکھنے کے اہم موضوع پر مدلل انداز میں روشنی ڈالی اور امن مشنز میں پاکستان کے بے مثال تعاون کا خصوصاً ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اجتماعی سفارتکاری کو بروئے کار لاکر تنازعات کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے پر توجہ دینی چاہیے، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، اکنامک اینڈ سوشل کونسل، عالمی عدالت انصاف اور پیس بلڈنگ کمیشن کا کردار اس ضمن میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اقوام متحدہ کے امن مشنز میں اپنی دیرپا شراکت پر فخر ہے، اب تک 47 امن مشنز میں پاکستان کے 230،000 فوجی شرکت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنز کو دہشت گردوں، قبائلی دشمنیوں اوراپنی حفاظت جیسے چیلنجز کا سامنا ہے،ایک ایسی دنیا جہاں چیلنجز سرحدوں سے بالاتر ہیں، ہمارا اتحاد اور مشترکہ عزم پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے، دیرپا امن کا قیام ان وجوہات کی بنا پر انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔ محسن نقوی نے کہا کہ امن مشنز کےمستقبل بارے سنجیدہ اور وسیع البنیاد غور و خوض کے مطالبات سے متفق ہیں، اقوام عالم کے دیرپا امن کےلئے کسی بھی نئی حکمت عملی میں چند اہم عوامل پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ امن مشنزکو ایک مجموعی ’’سیاسی حکمت عملی‘‘ کا حصہ ہونا چاہیے جو تنازعات اور تشدد کی بنیادی وجوہات کو حل کرنے کی کوشش کرے، اقوام متحدہ کے امن مشنز کے مینڈیٹ کو خاص حالات کے لیے ہونے کے ساتھ حقیقت پسندانہ اور قابل حصول ہونا چاہیے، ہر مشن کو اپنے مینڈیٹ کو نافذ کرنے کے لیے مالی، انسانی و مادی وسائل اور جدید صلاحیتیوں سے لیس ہونا چاہئے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کے امن دستوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے اور متوقع خطرات سے نمٹنے کےلئے موزوں تربیت دی جانی چاہیے۔ محسن نقوی نے کہا کہ شہریوں اور امن دستوں پر حملوں کے بروقت ردعمل کو یقینی بنانے کےلئے کمانڈ اینڈ کنٹرول میں بہتری لائی جا سکتی ہے، اقوام متحدہ اور میزبان ممالک کی جانب سے امن مشن پر حملوں کا بہتر طریقے سے محاسبہ کیا جانا چاہیے، امن قائم کرنے اور امن کے نفاذ کے درمیان فرق واضح ہونا چاہیئے، متوقع خطرات کا جواب دینے کےلئے امن دستوں کی بہتر ٹریننگ وقت کی اہم ضرورت ہے، میزبان ممالک کو یو این امن دستوں کے خلاف حملوں کے حوالے سے زیادہ مضبوط ردعمل دینا چاہیے، علاقائی تنظیمیں امن نافذ کرنے کی حکمت عملی میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خاص طور پر افریقی یونین اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی اسی) کے ساتھ امن مشنز میں تعاون کےلئے پرعزم ہے، پاکستان امن کو مزید فروغ دینے کے لیے اقوام متحدہ اور اس ضمن میں دلچسپی رکھنے والی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے،ہماری طاقت امن، سلامتی اور انصاف کےلئے باہمی کوششوں میں مضمر ہے، ہم سب مل کر پرامن دنیا کا قیام عمل میں لاسکتے ہیں۔