دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک مذہب، فرقہ یا طبقہ کی نہیں، پوری قوم کو متحد ہو کر اس سے نمٹنا ہوگا، وزیر دفاع خواجہ آصف کی پولیس لائن پشاور سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت

دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک مذہب، فرقہ یا طبقہ کی نہیں، پوری قوم کو متحد ہو کر اس سے نمٹنا ہوگا، وزیر دفاع خواجہ آصف کی پولیس لائن پشاور سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت

اسلام آباد۔31جنوری (اے پی پی):وزیر دفاع خواجہ آصف نے پولیس لائن پشاور سانحہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک مذہب، فرقہ یا طبقہ کی نہیں، پوری قوم کو متحد ہو کر اس سے نمٹنا ہوگا، امریکہ سے ہمیں اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں مگر ہمیں آئندہ کسی اور کی جنگ میں حصہ نہیں لینا چاہئے۔

منگل کو قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملہ ہوا اور ملک بھر میں 2010-11 سے 2016-17 تک دہشت گردی کے خلاف بھرپور جنگ لڑی گئی، پیپلز پارٹی دور میں سوات آپریشن ہوا، ان اقدامات سے کراچی سے سوات تک امن قائم ہوا۔

انہوں نے کہا کہ اسی ایوان میں ڈیڑھ دو سال قبل اسی ہال میں ہمیں بریفنگ دی گئی، ہمیں بتایا گیا کہ یہ لوگ بات چیت کے ذریعے امن کے راستے پر آ سکتے ہیں، اس حوالے سے مختلف آراء کا اظہار کیا گیا، افغان جنگ کے بعد وہاں سے بیروزگار ہونے والے لوگوں کو یہاں بلایا گیا جس کا سب سے پہلا اظہار سوات اور وانا کے لوگوں نے صدائے احتجاج بلند کی۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز پولیس لائن پشاور میں ظہر کی نماز کے وقت نمازیوں کو شہید کیا گیا، اس واقعہ پر بھی انہیں اقدامات کی ضرورت ہے جس طرح پہلے پوری قوم نے یک آواز ہو کر کارروائی کی۔

انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق دور میں روس کو افغانستان میں شکست ہوئی، اس کے بعد ہم 10 سال تک بھگتے رہے، اس کے بعد نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر چڑھائی کی جس کے بعد یہ جنگ ہماری مساجد، بازاروں اور گلی کوچوں میں آ گئی، سوات آپریشن کی کمانڈ کرنے والے سکیورٹی اہلکاروں کے بچوں کو چن چن کر شہید کیا گیا، یہ ہماری پالیسیوں کا نتیجہ تھا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور اسرائیل میں بھی مساجد میں نمازیوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں ہوتا جو پاکستان میں ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے اعمال کلمہ اور دین کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتے۔ انہوں نے کہا کہ میں کسی کی دل آزاری نہیں کرنا چاہتا مگر یہ حقائق ہمیں تسلیم کرنا ہوں گے، پشاور میں بہائے جانے والے خون کا حساب کون دے گا، شہداء کے وارثوں کو کس طرح مطمئن کریں گے، یہ موقع ہے کہ ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہو گا، ان لوگوں کو یہاں کیوں لایا گیا، دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک مذہب، فرقہ یا طبقہ کی نہیں ساری قوم کی جنگ ہے، پوری قوم متحد ہو کر ہی اس جنگ کا مقابلہ کر سکتی ہے، دہشت گردی کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، ایوان رہنمائی کرے کہ دہشت گردی سے ہمیں کس طرح نمٹنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس اور فوج کی 83 ہزار شہادتیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب تو ہمارے طرز زندگی اور گفتگو میں بھی دہشت گردی آ گئی ہے جس کی گواہی سوشل میڈیا سے مل سکتی ہے، ہمارا 126 ارب ڈالر کا نقصان بھی اسی دہشت گردی کا شاخسانہ ہے، یہ وقت ہے کہ ہم اپنا خود محاسبہ کریں، ہم افغانستان کی بہتری چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارا برادر ہمسایہ ملک ہے، ساڑھے چار لاکھ افغانی قانونی دستاویزات کے تحت پاکستان آئے جو واپس نہیں گئے، یہاں ڈالر نہیں ہیں، افغانستان بوریاں بھر بھر کر ڈالر بھیجا گیا، افغانستان کی 5 ملین آبادی کا روزگار پاکستان کے ساتھ منسلک ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان حالات میں ہمارا اندرونی خلفشار لے بیٹھے گا، ہمارا حال تو ایک گروی رکھی قوم کا ہے جس کا مستقبل اس کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارے اچھے تعلقات ہونے چاہئیں مگر ان کیلئے ہمیں جنگیں نہیں لڑنی چاہئیں، ہمیں سب سے پہلے اپنے گھر کا سوچنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہاں ایک شخص اقتدار کیلئے پاگل ہو رہا ہے، کبھی کہتا ہے کہ میں خطرناک ہو جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم منتخب نمائندے ہیں، ہمیں وہ کردار ادا کرنا چاہئے جن کا حالات تقاضا کر رہے ہیں۔