29.4 C
Islamabad
منگل, اپریل 29, 2025
ہومعلاقائی خبریںدیہی علاقوں میں ایکو فرینڈلی بزنس کو فروغ دے کر خواتین کو...

دیہی علاقوں میں ایکو فرینڈلی بزنس کو فروغ دے کر خواتین کو بااختیار بنایا جائے،اہرین

- Advertisement -

حیدرآباد۔ 29 اپریل (اے پی پی):سندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام کے وائس چانسلر ڈاکٹر الطاف علی سیال نے کہا کہ موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے دیہی سطح پر گرین انٹرپرینیورشپ، گرین اکانومی اور گرین فنڈز کی رسائی کو فروغ دینا ہوگا تاکہ خواتین اور نوجوان گھریلو سطح پر معاشی طور پر مضبوط ہو سکیں۔ انہوں نے کہا کہ خوراک کے تحفظ کے لیے مقامی وسائل کو بروئے کار لانا نہایت ضروری ہے۔فوڈ ٹیکنالوجی کی ماہر اور تعلیم دان ڈاکٹر تحسین فاطمہ میانو نے کہا کہ دیہی علاقوں میں زرعی اور جانوروں کےفضلے سے بائیوگیس توانائی، جبکہ کاٹیج اور الائیڈ انڈسٹری کیلئے دیہاتی خواتین کے مہارتوں کے بروئے کار لایا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا نوجوان اور خاص طور پر خواتین نوجوان لڑکیاں اور خواتین آرگینک غذائی اشیاء کی تیاری کے ذریعے کامیاب کاروباری ماڈل تشکیل دے سکتی ہیں۔

ماہر معیشت اور سندھ زرعی یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر غلام حسین وگن نے کہا کہ پاکستان کا زرعی شعبہ، جو 38 فیصد افراد کو روزگار فراہم کرتا ہے اور قومی جی ڈی پی میں 24 فیصد حصہ دار ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، پانی کی قلت، بے ترتیب بارشوں اور انڈس ڈیلٹا میں سمندر کے پانی کے چڑھاؤ کی وجہ سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔ انہوں نے عالمی اداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ درجہ حرارت میں 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ اضافہ ہو چکا ہے اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2050 تک 14 کروڑ افراد ماحولیاتی ہجرت پر مجبور ہو سکتے ہیں۔گرین ارتھ ایکشن فاؤنڈیشن کی نمائندہ، ماحولیاتی تعلیم کی ماہر پرہ سیال نے سیمینار کی حوالے سے اپنی بریفنگ کے دوران کہا کہ جی ای اے ایف ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو کمیونٹی انگیجمنٹ اور اختراعی اقدامات کے ذریعے پائیدار ترقی کو فروغ دیتا ہے۔

- Advertisement -

ٹیکنیکل سیشن سے خطاب کرتے ہوئےسندھ زرعی یونیورسٹی کی ایسوسیئیٹ پروفیسر ڈاکٹر صائمہ کلثوم ببر اور پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل کی ڈاکٹر انیلا حمید میمن نے کہا کہ درختوں کی بے دریغ کٹائی اور مقامی پودوں کی کمی کی وجہ سے فوڈ ایکو سسٹم متاثر ہوا ہے، اور پرندوں کی تعداد میں واضح کمی آئی ہے، اور زمین پر کیمیکل کھادوں و زہریلی ادویات کے استعمال کے منفی اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔ انہوں نے جدید زرعی طریقوں اور نئی فصلوں پر تحقیق کو فروغ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔سیمینار کے آخر میں دیہی خواتین میں سلائی مشینیں تقسیم کی گئیں تاکہ وہ دستکاری اور سلائی کے ذریعے اپنا روزگار خود پیدا کر سکیں، جبکہ مہمان مقررین اور کی نوٹ اسپیکرز کو اعزازی شیلڈز پیش کی گئیں۔

 

Short Link: https://urdu.app.com.pk/urdu/?p=589762

- Advertisement -
متعلقہ خبریں
- Advertisment -

مقبول خبریں