ذوالفقار علی بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا ،سپریم کورٹ

107
Supreme Court

اسلام آباد۔6مارچ (اے پی پی):‏سپریم کورٹ آ ف پاکستان نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہاہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا، کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا اور ان کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں ملا۔

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ نے سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت سے متعلق سابق صدر آصف علی زرداری کے 2011 میں ارسال کئے گئے صدارتی ریفرنس پر بدھ کو اپنی رائے دے دی جس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں فئیر ٹرائل کے بنیادی حق پر عمل نہیں کیا گیا۔ ان کو فئیر ٹرائل کا حق نہیں ملا۔نو رکنی لارجر بینچ نے قرار دیا ہے کہ اس معاملے پر متقفہ رائے ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل آئین و قانون کے مطابق نہیں تھا۔ مشاورتی دائرہ اختیار میں اس کیس میں شواہد کا دوبارہ جائزہ نہیں لے سکتے۔سپریم کورٹ نے رائے میں مزید کہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل کی کارروائی بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی البتہ آئین اور قانون ایسا طریقۂ کار فراہم نہیں کرتا کہ اس کیس کا فیصلہ اب کالعدم قرار دیا جائے۔

رائے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کیس میں نظرِ ثانی کی درخواست خارج ہو چکی ہے جب کہ حتمی فیصلہ ہو چکا ہے۔سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ماضی کی غلطیاں تسلیم کئے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا ۔ یہ فیصلہ عدالتی نظیر ہے یا نہیں، اس سوال میں قانونی اصول کو واضح نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ یہ صدارتی ریفرنس سابق صدر آصف علی زرداری نے 2011 میں دائر کیا تھا ۔ گذشتہ 13 برس کے دوران اس ریفرنس پر مجموعی طور پر 12 سماعتیں ہوئیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے نو رکنی لارجر بینچ نے اس صدارتی ریفرنس پر سات سماعتیں کرنے کے بعد چار مارچ2024 کو اس صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے کو محفوظ کیا تھا۔