کوئٹہ۔ 31 جنوری (اے پی پی):گورنربلوچستان جعفرخان مندوخیل نےکوئٹہ کے ایک مقامی ہوٹل میں زراعت پر مبنی مشاورتی سیشن کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ زراعت اور لائیو سٹاک کی اپنی وسیع صلاحیت رکھنے کے باوجود بلوچستان کا پورا ایگریکلچر سیکٹر جمود کا شکار ہے کیونکہ ہم زرعی تجارت پر مبنی ایک جامع حکمت عملی بنانے میں اب تک ناکام ہیں۔ ایک جانب ہمارے زمیندار جدید زرعی طریقوں سے نابلد ہیں تو دوسری طرف ہمارے زرعی ماہرین کی ان پٹ بھی ناکافی ہے۔
زرعی معیشت کے فروغ کے حوالے سے لسبیلہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک ترین اور ان کی پوری ٹیم خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے لسبیلہ یونیورسٹی کے زیرِ اہتمام زراعت پر مبنی تجارت کے فروغ کیلئے ایک مشاورتی سیشن کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مذکورہ سیشن میں لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر، واٹر اور میرین سائنسز (LUAWMS) کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک ترین، بیوٹمز یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد حفیظ، لورالائی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر احسان کاکڑ، پرنسپل سیکرٹری ٹو گورنر بلوچستان ہاشم خان غلزئی اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر دوست بلوچ سمیت مختلف سٹیک ہولڈرز بشمول صنعت کار، پالیسی میکرز، ریسرچرز اور پریکٹیشنرز بھی شریک تھے۔
سیشن کے شرکاء سے خطاب میں گورنر بلوچستان جعفرخان مندوخیل نے کہا کہ 2050 تک پاکستان دنیا کا تیسرا بڑا آبادی والا ملک بن جائےگا۔ اس ضمن میں ہمیں اپنی خوراک کی موجودہ اور مستقبل قریب ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دانشمندانہ منصوبہ بندی کرنی ہوگی بدقسمتی سے ہم آج بھی معیاری بیجوں کے حصول کےلئے دوسرے ممالک پر انحصار کر رہے ہیں۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم زراعت اور لائیو سٹاک کے سیکٹرز کو جدید خطوط پر استوار کرنے کےلئے دونوں شعبوں میں انقلابی اقدامات اٹھائیں۔ گورنرنے کہا کہ بلوچستان پورے ملک کی لائیو سٹاک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
موسیٰ خیل اور ژوب جیسے اضلاع میں مون سون کی بارشیں بھی وافر مقدار میں ہوتی ہیں جس کا ہمیں موثر طریقے سے استعمال کرنا ہوگا۔ جدید سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہم بارانی زمینوں کو بھی قابل کاشت بنا سکتے ہیں جس سے پیداواری معیار اور مقدار دونوں میں اضافہ کیا جا سکتا ہے لیکن ہمیں ماہرانہ رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی زرعی تحقیق کو ترقی دینے کےلئے بائیو انجینئرنگ کے ماہرین سے تعاون حاصل کرنا چاہیے۔ پاکستان کے 44 فیصد رقبے کے ساتھ، بلوچستان ملک کی زرعی ترقی کی قیادت کر سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ قلت آب پر قابو پانے کےلئے اپنے زمینداروں اور کسانوں کو ڈرپ ایریگیشن سسٹم کے بارے میں آگاہ کرنا لازمی ہے اور ژوب سے لےکر خضدار تک زیتون کے درختوں جیسی فصلوں کےلئے کم پانی کے استعمال کو بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس رفتار سے ہماری اور دنیا کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے کہ معیشت کا مستقبل زراعت پر منحصر ہے۔
گویا بڑھتی ہوئی عالمی آبادی کے ساتھ ہمیں زرعی اقتصادی ترقی کو آگے بڑھاناہوگا۔ اپنی زرعی تحقیق کو ترقی دےکرہم نہ صرف اپنی خوراک کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ ہم خطے میں ایک اہم ایکسپورٹ کرنے والا ملک بن سکتے ہیں۔ آخر میں گورنر بلوچستان نے منتظمین اور ماہرین میں یادگاری شیلڈز تقسیم کیں۔