زری پالیسی کمیٹی کا پالیسی ریٹ کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ

بینکوں کی جانب سے پرسنل لونز کے اجراء میں اگست کے دوران سالانہ بنیادوں پرکمی ریکارڈ

کراچی۔22اگست (اے پی پی):اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی زری پالیسی کمیٹی(ایم پی سی)نے منعقدہ اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے ۔ مرکزی بینک سے پیر کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق زری پالیسی کمیٹی نے پیر کو ہونے والے اپنے اجلاس میں پالیسی ریٹ کو 15فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیاہے ۔

اوورہیٹنگ معیشت کو ٹھنڈا کرنے اور جاری کھاتے کے خسارے کو قابو میں کرنے کے لیے پالیسی ریٹ کو گذشتہ ستمبر سے اب تک مجموعی طور پر 800بیسس پوائنٹس بڑھایا گیا ہے، درآمدات کو کم کرنے کے لیے حال ہی میں کچھ عارضی انتظامی اقدامات کیے گئے ہیں اور مالی سال 23 کے لیے مضبوط مالیاتی یکجائی کی منصوبہ بندی ہے۔

توقع ہے کہ یہ اقدامات آنے والے مہینوں کے دوران نظام پر اثر انداز ہوں گے۔توقعات کے مطابق مہنگائی کی حالیہ صورت حال ، ملکی طلب میں اعتدال اور بیرونی پوزیشن میں کچھ بہتری کے آغازکی بنا پر ایم پی سی کی رائے تھی کہ اس مرحلے پر کچھ توقف کرنا دانشمندی ہوگی۔ آگے چل کر ایم پی سی اعدادوشمار پر انحصار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور ماہ بماہ مہنگائی ، مہنگائی کی توقعات، مالیاتی اور بیرونی محاذوں کی صورت حال نیز اجناس کی عالمی قیمتوں اور اہم مرکزی بینکوں کی جانب سے شرح سود کے فیصلوں پر بھرپور توجہ رکھے گی۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا ہے کہ پچھلے اجلاس کے بعد ایم پی سی نے تین اہم ملکی پیش رفتیں نوٹ کیں۔ اول،عمومی مہنگائی جولائی میں مزید بڑھ کر 24.9 فیصد ہوگئی اور قوزی مہنگائی بھی بڑھی۔ توانائی کی سبسڈی کے پیکیج جس کے اثرات مالی سال کے بقیہ حصے کے دوران مہنگائی کے اعدادوشمار میں ظاہر ہوتے رہیں گے، کے ضروری خاتمے نیز پچھلے مہینے ضروری غذائی اشیا کی قیمت میں تیزی اور ایکسچینج ریٹ کی کمزوری کے پیش نظر اس کی توقع تھی۔

دوم ، جولائی میں تجارتی توازن تیزی سے گر گیا ، اگست کے دوران روپے میں گراوٹ کا رجحان تبدیل ہوا اور بہتر مبادیات اور احساسات کی بنا پر اس کی قدر میں 10 فیصد کے لگ بھگ بہتری آئی۔ سوم، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت جاری جائزے پر بورڈ کا اجلاس 29 اگست کو ہوگا اور توقع ہے کہ اس میں 1.2 ارب ڈالر کی مزید ایک قسط جاری کی جائے گی اور کثیر فریقی اور دو طرفہ قرض دہندگان کی جانب سے رقوم کی آمد کو بھی تحریک ملے گی۔

علاوہ ازیں پاکستان کو مالی سال 23 میں اپنی بیرونی مالکاری ضروریات سے بڑھ کر دوست ممالک سے اضافی 4 ارب ڈالر کامیابی سے مل چکے ہیں ۔ نتیجے کے طور پر سال کے دوران زر مبادلہ کے ذخائر مزید بڑھیں گے جس سے بیرونی لحاظ سے کمزوری کم کرنے میں مدد ملے گی۔ بین الاقوامی پیش رفتوں کے حوالے سے زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ حالیہ ہفتوں میں عالمی اجناس کی قیمتوں اور امریکی ڈالر دونوں میں کمی آئی ہے، ایسا عالمی نمو میں توقع سے زیادہ تیزی کے ساتھ سست رفتاری کی علامات اور مارکیٹ کی ان ابھرتی ہوئی توقعات کے ردعمل میں ہوا کہ امریکی فیڈرل ریزرو کی سختی کا چکر پچھلے اندازے کے مقابلے میں کم جارحانہ رہے گا۔

گذشتہ موسم گرما سے جاری رجحان کے مقابلے میں ابھرتی منڈیوں کے مرکزی بینکوں نے اپنے حالیہ اجلاسوں میں پالیسی ریٹ کو روکنا شروع کردیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر خطرات ممکنہ طور پر مہنگائی سے نمو کی طرف منتقل رہے ہیں، اگرچہ اس مرحلے پر ابھی صورت حال میں بہت بے یقینی پائی جاتی ہے۔بحیثیت مجموعی زری پالیسی کمیٹی نے کہا کہ معیشت میں برآمدات اور بیرونی نجی رقوم کی آمد کے قدرے چھوٹے حصے کو مدنظر رکھتے ہوئے عالمی نمو میں کچھ بڑی سست رفتاری دیگر ابھرتی معیشتوں کی نسبت پاکستان کے لیے اتنی نقصان دہ نہیں ہو گی۔

نتیجتاً اجناس کی عالمی قیمتوں میں کمی کے ساتھ مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے کو کم ہونا چاہیے جبکہ نمو اتنی بری طرح متاثر نہیں ہو گی۔حقیقی شعبہ میں جیسا کہ توقع تھی، گذشتہ زری پالیسی اجلاس کے بعد سے سرگرمی معتدل ہوئی ہے۔ طلب کے بیشتر اظہاریے نرم ہوئے ہیں ، جیسے جولائی میں سیمنٹ، پٹرولیم مصنوعات، کھادوں اور گاڑیوں کی فروخت ماہ بہ ماہ بنیاد پر کم ہو گئی اور جون کے دوران بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں ہونے والی سال بسال نمو تقریباً نصف رہ گئی۔

مون سون کی غیرمعمولی طور پر موسلادھار اور طویل بارشوں کی وجہ سے سیلاب کی حالیہ صورت حال نے زرعی پیداوار میں کمی کے خطرات پیدا کئے ہیں، خصوصاً کپاس اور موسمی فصلوں کے حوالے سے ، جس کے اس سال نمو پر اثرات پڑسکتے ہیں۔ مستقبل میں ، مالیاتی اور زری پالیسیوں کی سختی کے باعث ایم پی سی کو مالی سال 23 کے دوران نمو کے 3 تا 4 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔

اس سے مہنگائی اور جاری کھاتے پر طلب کے لحاظ سے دبائو کم ہوگا اور مستقبل میں بلند نمو کے لیے زیادہ پائیدار بنیادوں پر حالات سازگار ہوں گے۔ وسط مدت میں بلند اور پائیدار ترقی کے لیے پاکستان کے نمو کے ماڈل کو کھپت سے ہٹا کر قطعی طور پر برآمدات اور سرمایہ کاری کی طرف لے جانے کے لیے ساختی اصلاحات کی بھی ہنگامی ضرورت ہے۔

بیرونی شعبہ میں تجارتی خسارہ جون میں نمایاں اضافے کے بعد گذشتہ ماہ نصف ہوکر 2.7 ارب ڈالر رہ گیا کیونکہ توانائی کی درآمدات میں خاصی کمی واقع ہوئی جبکہ غیر توانائی درآمدات نے اعتدال پر آنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ پاکستان دفترِ شماریات کے ڈیٹا کے مطابق درآمدات میں 36.6 فیصد (ماہ بماہ)اور 10.4فیصد (سال بسال)کی بڑی کمی ہوئی ۔ برآمدات میں بھی 22.7 فیصد (ماہ بماہ)کمی آئی جس کی بڑی وجہ عید کی تعطیلات ہیں تاہم عالمی طلب کے سست ہونے کی بھی کچھ علامات سامنے آئی ہیں۔ دریں اثنا ترسیلاتِ زر مضبوط سطح پر رہیں۔

کرنٹ اکائونٹ میں ان بہتر تبدیلیوں اور آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے غیر یقینی صورتِ حال میں کمی کے باعث بہتر احساسات کی بنا پر اگست میں روپے کی قدر بحال ہوئی ہے۔ درآمدات میں حالیہ تخفیف سے ملکی طلب کے سست ہونے کے ساتھ اس امر کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ عارضی انتظامی اقدامات نے اپنے اثرات دکھائے بشمول اس اقدام کے کہ گاڑیوں اور موبائل فون کی مشینری اور الگ الگ پرزوں کی شکل میں درآمد کے لیے پیشگی اجازت لازمی قرار دی گئی تھی۔

یہ اقدامات زیادہ عرصے تک چلنے والے نہیں ہیں اور اگلے مہینوں میں انہیں نرم کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ان اقدامات میں نرمی کے ساتھ اس امر کو یقینی بنانے کے لیے کہ مجموعی درآمدی بل قابو میں رہے، یہ اہم ہوگا کہ مالی سال 23 میں درکار مالیاتی یکجائی پوری کر لی گئی ہے اور یہ کہ توانائی کی درآمدات کم کرنے کے لیے مضبوط اقدامات کر لیے گئے ہیں تاکہ درآمدی اخراجات کو یقینی طور پر کنٹرول میں رکھا جا سکے ۔ ان اقدامات میں بازاروں کو جلد بند کیا جانا، رہائشی اور کاروباری صارفین کی جانب بجلی کا کم استعمال اور گھر سے دفتر کا کام کرنے اور کار پولنگ(کار میں زیادہ افراد کی سواری)کی حوصلہ افزائی شامل ہیں۔

جاری کھاتے اور روپے کی قدر میں حالیہ بہتری سے قطع نظر، زرمبادلہ کے ذخائر فروری کے 16.4 ارب ڈالر کی نسبت 12 اگست کو نصف یعنی 7.9 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، کیونکہ سرکاری رقوم کا انخلا سرکاری رقوم کی آمد سے بڑھ گیا ہے۔ سرکاری رقوم کی آمد جس میں کثیر فریقی، دوطرفہ اور کمرشل قرضوں کے ساتھ یورو بانڈ اور صکوک کا اجرا شامل ہے،کے ذرائع سکڑنے میں بیشتر حصہ پالیسی میں سقم کے باعث آئی ایم ایف جائزہ پروگرام کی تکمیل میں تاخیر کا ہے۔ اس دوران رقوم کے انخلا کے اعتبار سے بیرونی قرضوں کے واجب الادا ہونے پر اِن کی واپسی جاری رہی۔ تاہم اگلے آئی ایم ایف جائزہ پروگرام کی متوقع تکمیل اور دوست ممالک سے اضافی اعانت کے حصول سے مالی سال 23 کے دوران زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ کر پیش گوئی کے مطابق تقریبا 16 ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گے۔

اِسے اور آگے چل کر روپے کی مضبوطی یقینی بنانے کے لیے یہ امر اہم ہوگا کہ ملکی طلب اور توانائی کی درآمدات میں اعتدال کے ذریعے جاری کھاتے کے خسارے کو جی ڈی پی کے 3 فیصد تک محدود رکھا جائے، اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف پروگرام کو مثبت ڈگر پر قائم رکھنے کے لیے آئندہ 12 ماہ میں طے شدہ مالیاتی سختی اور ساختی اصلاحات پر کاربند رہا جائے۔ مالیاتی شعبہ میں سات سال میں پہلی مرتبہ کافی بلند ٹیکس محاصل کی بنا پر مالی سال 23 کے بجٹ میں ایک بنیادی فاضل کا ہدف رکھا گیا ہے۔ اس میں جی ڈی پی کے لگ بھگ 3فیصد کے مساوی مضبوط مالی یکجائی کو ہدف بنایا گیا ہے جو سال کے دوران معیشت کو ٹھنڈا کرنے اور مہنگائی اور جاری کھاتے کے خسارے میں کمی کو یقینی بنانے کے لیے موزوں ہے۔

یہ ضروری ہے کہ یہ مالی یکجائی آئے اور بجٹ میں درج اقدامات پر پورے طور پر عمل ہو، خصوصاً ملکی توانائی کی قیمتوں کو بین الاقوامی نرخوں سے ہم اہنگ کرنے کے اہم فیصلوں اور ٹیکس اساس وسیع کرنے کے ساتھ ضرورت مند ترین طبقات کو ہدفی سبسڈیز فراہم کرنے کے حوالے سے۔ ایسے اقدامات جن سے ان لوگوں پر اضافی بوجھ پڑے جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں ہیں یا ایسے اقدمات جو ترقی پسندانہ نہیں نمو اور روزگار نیز سماجی استحکام کے لیے نقصان دہ ہوں گے۔زری کیفیت اور مہنگائی کا منظرنامہ کے تحت مالی سال 22 میں نجی شعبے کا قرضہ لگ بھگ 21 فیصد (سال بسال)بڑھا، جو نامیہ (nominal)جی ڈی پی سے کسی قدر زیادہ ہے۔یہ اضافہ وسیع البنیاد تھا جس میں ٹیکسٹائل، غذا، تعمیرات، توانائی اور تھوک اور خردہ تجارت جیسے شعبوں میں مضبوط سرگرمی کی بنا پر جاری سرمائے (ورکنگ کیپٹل)کے قرضوں کا حصہ سب سے زیادہ تھا۔

حقیقی لحاظ سے نجی شعبے کے قرضے کی نمو پچھلے سال کی نسبت زیادہ پست تھی اور درحقیقت جون میں 3 فیصد کم ہوگئی، جو معاشی نمو کی معتدل ہوتی ہوئی رفتار سے ہم آہنگ ہے۔ جیسا کہ ضرورت تھی، پچھلے ایم پی سی اجلاس کے بعد سے ثانوی بازار کی یافتیں (yields)اور حکومت کی نیلامیوں میں قطع شرحیں (cut-off rates)بھی پالیسی ریٹ سے اب بخوبی ہم آہنگ ہیں۔اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ توقع کے مطابق جولائی میں مہنگائی کا دبائو شدید ہوگیا اور عمومی مہنگائی مزید 3فیصد ی درجے بڑھ کر 24.9 فیصد (سال بسال)ہوگئی۔ اس میں بڑا حصہ غذا اور توانائی کی مہنگائی کا تھا لیکن قوزی مہنگائی بھی مزید بڑھی، خصوصا دیہی علاقوں میں۔

آنے والے مہینوں میں رسدی اقدامات کے ذریعے ، جن سے پیداوار بڑھے اور رسدی زنجیر کی رکاوٹیں دور ہوں ، غذائی مہنگائی سے نمٹنے کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ کاروباری اداروں کی جانب سے مہنگائی کی توقعات کافی کم ہونے کے شواہد ہیں۔

آگے چل کر پیش گوئی کے مطابق عمومی مہنگائی پہلی سہ ماہی میں عروج پر پہنچ جائے گی اور پھر مالی سال کے بقیہ حصے کے دوران بتدریج کم ہوگی۔ اس کے بعد اس کے تیزی سے کم ہونے کی توقع ہے اور مالی سال 24 کے آخر تک گر کر یہ 5-7 فیصد کے ہدف تک پہنچ جائے گی، جس کے اسباب سخت زری اور مالیاتی پالیسیوں کے موخر اثرات ، اجناس کی عالمی قیمتوں کا معمول پر آنا اور فائدہ مند اساسی اثرات(base effects)ہوں گے۔

یہ بنیادی منظرنامہ غیریقینی کیفیت سے مشروط ہے اور اسے اجناس کی عالمی قیمتوں کے رجحان، ملکی مالیاتی پالیسی کے موقف اور ایکسچینج ریٹ سے خطرات لاحق ہیں۔ زری پالیسی کمیٹی مہنگائی، مالی استحکام اور نمو کے وسط مدتی امکانات پر اثر انداز ہونے والی تبدیلیوں کی محتاط نگرانی برقرار رکھے گی ۔