سابق حکومت کی نا اہلی، بد انتظامی، سی پیک دشمنی اور بروقت فیصلے نہ کرنے سے توانائی کے شعبے کے مسائل میں اضافہ ہوا،ذرائع پاور ڈویژن

60
غیر وابستہ تحریک کے سربراہی سطح کے رابطہ گروپ کا اجلاس ، تحریک کے چیئرمین الہام علیوف کی کووڈ-19 کے باعث دنیا پر پڑنے والے منفی اثرات کے تدارک اور بحالی کیلئے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی پینل کے قیام کی تجویز

اسلام آباد۔5جولائی (اے پی پی):سابق حکومت کی نا اہلی، بد انتظامی، سی پیک دشمنی اور بروقت فیصلے نہ کرنے سے توانائی کے شعبے کے مسائل میں اضافہ ہوا اور لوڈ شیڈنگ اور گردشی قرضے بڑھ گئے۔ گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی خریداری میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پچھلے پونے چار سال کے دوران سسٹم میں ایک میگاواٹ بجلی کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا، بجلی چوری کی روک تھام، واجبات کی وصولی بڑھانے اور بجلی کی ترسیل و تقسیم کو بہتر بنانے پر کوئی توجہ نہ دی گئی۔ موجودہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے لئے بجلی کی پیداوار میں اضافے اور ترسیل و تقسیم کے ساتھ ساتھ بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی میں اضافے کے لئے کوشاں ہے۔ آئندہ موسم گرما تک 7 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو جائے گی جس سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا سکے گا۔

سستی اور صاف توانائی کے لئے شمسی توانائی کی جامع پالیسی لائی جا رہی ہے، سرکاری و نجی عمارات کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، چھوٹے صارفین کو آسان قرضوں پر سولر پینل فراہم کئے جائیں گے، میٹر ریڈنگ کی شکایات کے ازالے کے لئے رواں سال کے آخر یا 2023ء کے شروع میں لگنے والا ہر نیا میٹر سمارٹ میٹر ہو گا۔ آئندہ درآمدی ایندھن پر کوئی بجلی گھر نہیں لگایا جائے گا، کے۔ٹو پاور پلانٹ سے 1100 میگاواٹ اور تربیلا پاور سٹیشن سے بجلی کی مکمل پیداوار کی بحالی سے عید کے دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں بڑا ریلیف ملے گا۔

پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق اس وقت بجلی کی جو پیداوار حاصل ہو رہی ہے اس کا ایک بڑا حصہ وہ ہے جس کا سنگ بنیاد سابق وزیراعظم نواز شریف نے 2013ء سے 2017ء کے دوران رکھا تھا جن میں 4 ایل این جی پاور پلانٹس، 2 نیوکلیئر پاور پلانٹس، 2 کول پاور پلانٹس، نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ اور تھرکول کے منصوبے شامل ہیں، ان میں سے بہت سے منصوبوں سے 2018ء تک پیداوار شروع ہو گئی تھی، کے۔

ٹو اور کے تھری نیوکلیئر پاور پلانٹس سے پیداوار بعد میں شروع ہوئی، 5 ہزار میگاواٹ کے مزید منصوبے سسٹم میں شامل ہو رہے ہیں ان کی بنیاد بھی اسی دور میں رکھی گئی تھی۔ سابق حکومت کے بجلی کے حوالہ سے دعوے غلط اور حقائق کے برعکس تھے، گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی خریداری میں کوتاہی کا مظاہرہ کیا گیا جس کی وجہ سے بجلی کی پیداوار سسٹم میں نہیں آ سکی۔

سابق حکومت کے پونے چار سال کے دوران ایک میگاواٹ بجلی بھی سسٹم میں شامل نہیں ہوئی۔ کروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سے پیداوار رواں سال فروری میں شروع ہونا تھی لیکن تاخیر کے بعد 29 جون سے 720 میگاواٹ کی پیداوار شروع ہو گئی ہے، اگر یہ منصوبہ وقت پر مکمل ہو جاتا تو لوڈ شیڈنگ میں ایک گھنٹے کی کمی آ سکتی تھی، نیلم جہلم پن بجلی منصوبہ 969 میگاواٹ کی پیداوار دے رہا ہے، یہ منصوبے سابق وزیراعظم نواز شریف کے دور میں شروع ہوئے تھے۔ سابق حکومت کی سی پیک دشمنی کی وجہ سے شنگھائی الیکٹرک کا 1214 میگاواٹ کا تھرکول کا منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا اور اس کے ضروری قانونی تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے مالی معاملات کو حتمی شکل نہیں دی جا سکی، اب اس منصوبہ سے دسمبر سے پیداوار شروع ہو جائے گی۔

تریموں آر ایل این جی پاور پراجیکٹ 2 سال سے مکمل ہے لیکن اسے گیس فراہم نہیں کی گئی، یہ منصوبہ نیب گردی کا شکار ہوا لیکن دو سے تین ماہ میں اس کی پیداوار شروع ہو جائے گی، اب اس منصوبہ کو گیس فراہم کی جا رہی ہے۔ سابق حکومت کی نالائقی، سی پیک سے دشمنی اور نیب کے کردار کی وجہ سے 3200 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہونے سے رہ گئی، اگر یہ بجلی سسٹم میں آ جاتی تو آج لوڈ شیڈنگ مجموعی طور پر سوا تین گھنٹے کم ہوتی۔ گردشی قرضہ سابق حکومت نے 2467 ارب روپے تک پہنچا دیا، گردشی قرضے میں 250 فیصد اضافہ سے شعبہ توانائی کو مالی مشکلات ہیں۔ گذشتہ حکومت نے عالمی منڈی سے سستے فیول کی خریداری کا موقع ضائع کرکے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔

ایران سے بلوچستان کے مختلف علاقوں کو بجلی کی فراہمی کے لئے کچھ نہیں کیا گیا اور ٹرانسمیشن لائنز بچھانے میں غفلت اور کوتاہی برتی گئی، اب موجودہ حکومت کا ایران کے ساتھ گوادر اور مکران کے ساحلی علاقوں کو بجلی کی 100 میگاواٹ فراہمی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ بجلی کی قیمت کی ری بیسنگ آخری مرتبہ فروری 2021ء میں کی گئی تھی، اس کے بعد توانائی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور دیگر معاملات بھی سامنے آئے تاہم ٹیرف میں ان کو شامل نہیں کیا گیا، اب وزیراعظم کی ہدایت پر کمیشن بنایا جا رہا ہے جو ماضی میں سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ اور ری بیسنگ نہ کرنے اور نیپرا پر ممکنہ سیاسی دبائو، سستی ایل این جی نہ خریدنے جیسے تمام معاملات کی چھان بین کرے گا، کمیشن میں توانائی کے شعبہ کے ماہرین کو شامل کیا جائے گا۔

سابق دور میں بجلی کی ترسیل اور تقسیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کچھ نہیں کیا گیا، مٹیاری۔لاہور ہائی پاور ٹرانسمیشن لائن کا منصوبہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا منصوبہ تھا، وہ اب مکمل ہو چکا ہے اس سے بجلی کی ترسیل میں بہتری آئی ہے لیکن سابق حکومت نے نیشنل ٹرانسمیشن کمپنی کے اربوں روپے کے منصوبے التواء میں ڈالے رکھے، موجودہ حکومت نے ریگولیٹری معاملات کو حل کرنے اور آئندہ درآمدی ایندھن پر کوئی بھی بجلی گھر نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

گزشتہ حکومت نے پاور پلانٹس کیلئے بروفت فیول کا انتظام نہیں کیا، سستے اور مقامی بجلی گھروں پر کام میں دانستہ تاخیر کی، عالمی سطح پر ایل این جی کی کم قیمتوں کے وقت طویل المدتی معاہدے نہ کرنے، ڈالر کی قدر میں اضافہ اور سرکلر ڈیٹ بھی لوڈشیڈنگ کی وجوہات ہیں، موجودہ حکومت نے بروقت اقدامات اٹھاتے ہوئے اگست2022 تک 70 ملین کیوبک فٹ یومیہ آر ایل این جی کا بندوبست کیا ہے،گزشتہ حکومت کی سستی کی وجہ سے کروٹ ہائیڈرو، شنگھائی الیکٹرک اور پنجاب تھرل آر ایل این جی کے3197 میگاواٹ کے منصوبے اپنی معین مدت میں مکمل نہ ہوسکے۔دستیاب اعدادوشمار کے مطابق اس وقت ملک بھر میں لوڈشیڈنگ کی زیادہ تر وجوہات سابقہ حکومت کی 2018 سے 2022 کے دوران غفلت اور کمیشن ہے، بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھتی ہوئی توانائی کی قیمتوں کے باعث پاکستان کے پاور سیکٹر کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

سابق حکومت کی جانب سے ساہیوال کول اور حب جیسے مکمل شدہ منصوبوں کیلئے ریوالونگ اکائونٹ کھولنے میں ناکامی کا نتیجہ یہ نکلا کہ سی پیک کے تحت بجلی کی تیاری کے سلسلہ میں توانائی کے شعبہ کیلئے مزید فنانسنگ نہیں کی گئی۔ گزشتہ حکومت یا تو سی پیک کے توانائی کے فریم ورک کو سمجھ نہیں سکی یا یہ فریم ورک اس کی سمجھ سے باہر تھا۔ اس سستی کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا اور اس شعبہ کاگلہ گھونٹا گیا۔ 1214 میگاواٹ کا تھرکول بلاک اور معدنیاتی شنگھائی الیکٹرک منصوبہ کی تکمیل مئی 2022 میں ہونا تھی تاہم اب یہ مئی 2023 میں مکمل ہونا ہے۔

اسی طرح اعلی کارکردگی کا حامل 1263 میگاواٹ کا پنجاب تھرمل آر ایل این جی پاور پلانٹ جھنگ پی ٹی آئی کی حکومت کی وجہ سے تین سال سے زیادہ تاخیرکا شکار رہا۔ دستیاب اعدادوشمار کے مطابق فیول مکس کی عدم دستیابی کی وجوہات میں آر ایف او کی عدم دستیابی ہے۔ 30 جون 2022 تک آئل انڈسٹری (او ایم سیز اور ریفائنریز) کے پاس دستیاب آر ایف او کے موجودہ ذخائر دو لاکھ 77 ہزار میٹرک ٹن ہیں جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن آر ایف او کے دو کارگو اس وقت بندرگاہ سے باہر ہیں ۔ جولائی 2022 کیلئے تقریبا ایک لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن کی درآمد کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔

یہ انتظامات جولائی 2022 کے دوران پاور ڈویژن کی طرف سے رکھی گئی چار لاکھ 36 ہزار میٹرک ٹن کی طلب کو پورا کرنے کیلئے کافی ہیں۔ بجلی کے شعبے کے لئے پٹرولیم ڈویژن مطلوبہ آر ایف او انتظام کرنے کیلئے تمام کوششیں کر رہا ہے اور متعلقہ پاور پلانٹس کی جانب سے بروقت آرڈر دینے اور پیشگی ادائیگیوں سے مشروط آر ایف او کی ضروریات کو آرام سے پورا کرسکتا ہے۔ 21 اپریل 2022 کو مئی اور جون کیلئے تین کارگو کے ٹینڈر دیئے گئے تاہم جون کے کارگو کیلئے کوئی بڈ موصول نہیں ہوئی جبکہ مارکیٹ کی قیمت سے زائد قیمت کی وجہ سے دو کارگو ایوارڈ نہیں کئے گئے۔3 جون 2022 کو جولائی 2022 کیلئے ایک کارگو کے ٹینڈر کی آخری تاریخ تھی۔

تاہم ایل سی کنفرمیشن مسائل کی وجہ سے اس میں شرکت کم رہی۔10 جون کو جولائی کے ماہ کیلئے ایک کارگو، اور 23 جون 2022 کو چار کارگو کے ٹینڈر کی آخری تاریخ تھی اس میں بھی یہی مسائل رہے۔ 16 سے 30 اپریل 2022 کے دوران ایک لاکھ 39 ہزار میٹرک ٹن کی ڈیمانڈ دی گئی جبکہ ایک لاکھ 68 ہزار میٹرک ٹن آر ایف او اپ لفٹ کیا گیا۔ مئی 2022 میں تین لاکھ چار ہزار میٹرک ٹن کی ڈیمانڈ کے مقابلہ میں دو لاکھ 58 ہزار میٹرک ٹن اپ لفٹ کیا گیا جبکہ جون 2022 کیلئے چار لاکھ 42 ہزار میٹرک ٹن ڈیمانڈ کے مقابلہ میں تین لاکھ چھ ہزار میٹرک ٹن اپ لفٹ کیا گیا۔ موجودہ حکومت نے اپریل میں 8 ملین ، مئی میں 12ملین، جون میں 12 ملین، جولائی میں 8 ملین اور اگست 2022 میں 7 ملین کیوبک فٹ یومیہ آر ایل این جی کا انتظام کیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اپریل سے جون 2022 کے دوران ایل این جی کی سپاٹ خریداری شروع کی۔

اس دوان 573 ملین ڈالر کی ایل این جی کی خریداری کی گئی۔ گوکہ پی ایس او اور پی ایل ایل کے ایس این جی پی ایل اور پاور سیکٹر کی طرف بڑی مقدار میں بقایا جات ہیں لیکن اس کے باوجود بجلی کیلئے سپلائی جاری رکھی گئی۔ جون میں ایل این جی کی ادائیگی میں پی ایس او کا شارٹ فال 285 ارب جبکہ پی پی ایل کا 119 ارب قابل وصول ہے۔

پی ایس او اور پی ایل ایل، ایل این جی درآمد کیلئے مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ حکومت کی جانب سے ایل این جی کی عالمی مارکیٹ میں قیمت کم ہونے پر طویل المدتی کنٹریکٹ نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے اب زائد قیمت پر ایل این جی مل رہی ہے جوکہ آر ایل این جی کی خریداری کے طویل المدتی معاہدوں میں کمی ہے۔ 2020 کے وسط میں آر ایل این جی 3 سے 5 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو دستیاب تھی تاہم اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا اگر اس وقت یہ معاہدہ کرلیا جاتا تو آج صارفین کو بجلی کے بل کم ملتے۔2018 سے 2022 کے دوران مسلم لیگ ن کی گزشتہ حکومت کے معاہدہ کی وجہ سے ایل این جی 8 ڈالر پر دستیاب تھی جبکہ اس وقت اس کی قیمت 9 ڈالر 44 سینٹ تھی جبکہ حالیہ مہینوں میں آر ایل این جی 38 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو سے تجاوز کرچکی ہے۔ دستاویز کے مطابق جو 2018 میں گردشی قرضہ 1152 ارب روپے تھا جبکہ مارچ 2022 میں اس میں 114 فیصد اضافہ کے ساتھ 2467 ارب تک پہنچ گیا۔

گردشی قرضہ بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پی ٹی آئی کے دور میں ڈالر کی قدر 115 کے مقابلہ میں 191 روپے تک بڑھ جانا بھی ہے۔ اس کے علاوہ بڑھتے ہوئے سرکلر ڈیٹ نے پرائیویٹ پاور پلانٹس کو حکومتی ادائیگیوں کو بھی متاثر کیا۔ 3900 میگاواٹ کے کوئلہ کے تین بڑے پاور پلانٹس کوئلہ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنی استعداد کے مطابق نہیں چل رہے۔ ایک کول پاور پلانٹ کا کوئلہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کراچی پورٹ سے واگزار نہیں ہو سکا ۔

عالمی مارکیٹ میں توانائی کی قیمتوں میں گزشتہ 18 ماہ میں 300 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ 2018 میں آر ایف او فی میٹرک ٹن 58 ہزار 85 روپے سے تھی جو اپریل 2022 میں ایک لاکھ 28 ہزار 210 میٹرک ٹن ہوگئی اسی طرح آر ایل این جی 1250 ایم ایم بی ٹی یو دستیاب تھی جو اپریل 2022 میں 2671 روپے تک پہنچ گئی۔2018 میں کول 18107 روپے ٹن تھا جو اپریل 2022 میں 63775 روپے ہوگیا۔ موجودہ حکومت لوڈ شیڈنگ کے مسئلے کے حل کے لئے بجلی کی پیداوار میں اضافے اور ترسیل و تقسیم کا نظام بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی میں اضافے کے لئے کوشاں ہے۔ 2013ء سے 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کے دور میں جو منصوبے شروع کئے گئے تھے ان سے 4623 میگاواٹ بجلی آئندہ موسم گرما سے پہلے سسٹم میں شامل ہو جائے گی جبکہ سولر، نیٹ میٹرنگ اور دیگر منصوبوں سے مجموعی طور پر آئندہ موسم گرما تک 7 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل ہو گی جس سے لوڈ شیڈنگ پر قابو پایا جا سکے گا۔

شمسی توانائی کی جامع پالیسی لائی جا رہی ہے، اس سلسلہ میں سرکاری و نجی عمارات کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جبکہ چھوٹے صارفین کو آسان قرضوں پر سولر پینل فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، چار ہفتوں میں پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا۔ رواں سال کے آخر یا 2023ء کے شروع میں لگنے والا ہر نیا میٹر سمارٹ میٹر ہو گا، اس سے بجلی کی ریڈنگ کے حوالہ سے شکایات دور ہو جائیں گی۔ حالیہ بارشوں سے دریائوں اور تربیلا ڈیم میں پانی کی آمد میں بہتری کے باعث 2 ہزار میگاواٹ پن بجلی اضافی رواں ہفتہ کے آخر تک دستیاب ہو گی، اس سے لوڈ شیڈنگ میں کمی آئے گی۔

عید سے پہلے تربیلا پاور سٹیشن اپنی مکمل 3500 میگاواٹ کی پیداوار شروع کر دے گا جس سے لوڈ شیڈنگ میں نمایاں کمی ہو گی، کے۔ٹو پاور پلانٹ سے بھی 1100 میگاواٹ بجلی سسٹم میں شامل کی جا رہی ہے جس سے عید کے دنوں میں لوڈ شیڈنگ میں بڑا ریلیف ملے گا۔ غریب ترین صارفین جو 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں انہیں ریلیف دیا جا رہا ہے اور 100 سے 200 یونٹس تک کے بجلی صارفین کیلئے بجلی کی قیمت نہ بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی 100 یونٹ تک کے صارفین کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی کارکردگی کا موازنہ پیش کیا جائے، بجلی چوری کی روک تھام اور واجبات کی وصولی بڑھانے کیلئے ڈسکوز کی مینجمنٹ کو بہتر بنایا جائے گا اور اس کیلئے نگرانی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جس سے واجبات کی وصولی اور ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے آپریشن میں 12 ماہ میں نمایاں بہتری آئے گی۔