اسلام آباد۔9ستمبر (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر پیر کو فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا جس کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے نئے عدالتی سال کے آغاز پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ نئے عدالتی سال کے موقع پر نظر ڈالی جاتی ہے کہ ادارے کی کارکردگی کیسی رہی، میرا سب سے پہلا کام فل کورٹ اجلاس بلانا تھا جو 4 سال سے نہیں ہوا تھا۔چیف جسٹس نے کہاکہ عوامی اہمیت کے حامل مقدمات کو براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد عوام کو براہِ راست اپنی کارکردگی دکھانا اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افرادجن کی مدت مکمل ہوچکی تھی، کو واپس بھیجا گیا ہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والے 3 سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی اور 78 نئی تعیناتیاں ہوئیں۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ نئے عدالتی سال کی تقریب ماضی سے سبق سیکھنے کا بھی ایک موقع ہوتا ہے۔انہوں نے کہاکہ کئی مرتبہ ملزمان اور مجرمان کے مقدمات کی باری آنے میں دہائیاں لگ جاتی ہیں، بے گناہ کا دہائیوں تک جیل میں رہ کر رہا ہونا کسی سانحے سے کم نہیں ہوتا۔جسٹس منصور علی شاہ بیرونِ ملک ہونے کی وجہ سے ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ شریعت اپیلٹ بینچ کے ارکان جسٹس قبلہ ایاز اور جسٹس خالد مسعود نے بھی فل کورٹ ریفرنس میں شرکت کی۔