اسلام آباد۔25مئی (اے پی پی):سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو تحریک انصاف کو ایچ نائن گراؤنڈ میں جلسے کیلئے جگہ فراہم کرنے کا حکم دیدیا۔
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کی سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی پر جلسہ کرنے کی اجازت دی ہے ۔ عدالت عظمی نے پی ٹی آئی قائدین اور کارکنوں کی گرفتاری سے روکتے ہوئے سری نگر ہائی وے پر ٹریفک بہائو میں خلل نہ ڈالنے کی ہدایت بھی کر دی۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ امید کرتے ہیں کہ تحریک انصاف کی ٹاپ لیڈرشپ اپنے ورکرز کو قانون ہاتھ میں نہ لینے کی ہدایت دے گی۔ سپریم کورٹ نے ایم پی او کے تحت تحریک انصاف کے گرفتار قائدین ،کارکنوں اور وکلاء کو رہا کرنے کا حکم دیدیا ۔ عدالت عظمی نے راستوں سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی استدعا مسترد کر دی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں میں پکڑی جانے والی ٹرانسپورٹ چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ جس ٹرانسپورٹ کے خلاف سنگین ایشو نہیں انہیں ریلیز کیا جائے ۔
عدالت عظمی نے وزارت داخلہ کو طاقت کے غیر ضروری استعمال سے روکتے ہوئے قرار دیا ہے کہ تحریک انصاف کے ورکرز پر امن رہیں گے، قانون کو ہاتھ میں نہیں لیا جائیگا، سرکاری املاک کو نقصان نہیں پہنچایا جائیگا، پی ٹی آئی نے یقین دہانی کرائی ہے کہ سری نگر ہائی وے کو بلاک بھی نہیں کیا جائیگا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے حکم میں آئی جی اسلام آباد کو تین گھنٹے کے اندر جلسہ گاہ کے وینیو کی سیکیورٹی یقینی بنانے کی بھی ہدایت کی ہے ۔
سپریم کورٹ نے حکومت اور تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کو آج رات دس بجے چیف کمشنر آفس میں مذاکراتی عمل شروع کرنے کی ہدایت کر تے ہوئے قرار دیا ہے کہ سیکرٹری داخلہ اور ڈپٹی کمشنر اٹک پی ٹی آئی کی مذاکراتی کمیٹی سے عمران خان کی ملاقات میں سہولت کاری کریں۔ بدھ کو جسٹس اعجازالاحسن کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے پیش نظر سڑکوں کی بندش کیخلاف اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی ۔
سماعت کے آغاز پر عدالت عظمیٰ نےسیکرٹری داخلہ، اسلام آباد کے چیف کمشنر،آئی جی ، ڈپٹی کمشنر اور ایڈووکیٹ جنرل کو 12 بجے تک طلب کرتے ہوئے چاروں صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کر کے اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء کیس میں جاری احکامات بھی طلب کیے ۔ سیکرٹری داخلہ ، چیف کمشنر اسلام آباد،آئی جی ،ڈپٹی کمشنر ،ایڈووکیٹ جنرل طلبی پر عدالت کے روبرو جبکہ تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرلز ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے ۔
دوران سماعت درخوست گزار و صدر اسلام آباد ہائیکورٹ شعیب شاہین نے موقف اپنایا کہ جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنادے چکے ہیں، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں،تحریک ا نصاف کے مظاہرین کیلئے بھی اسلام آباد میں جگہ مختص کی جا سکتی ہے،احتجاج کے حوالے سے سپریم کورٹ کی ہدایات موجود ہیں۔
جس پرجسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں،ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان پر حملے کا خطرہ ہے،خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے،بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں،راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔
دوران سماعت سیکرٹری داخلہ نے موقف اپنایا کہ لاء اینڈ آرڈر صوبوں کا کام ہے،وزارت داخلہ نے صوبوں کو کوئی ہدایت نامہ جاری نہیں کیا،حساس اداروں کی رپورٹس پر ہی کارروائی ہو رہی ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔
جس پراٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر احتجاج اور باہمی احترام کا میثاق کرنا ہوگا۔ جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ بطور حکمران آپ کا کام ہے کہ پہل کریں۔ اس دوران جسٹس اعجازالاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد کو پی ٹی آئی کو احتجاج کے لئے مناسب جگہ فراہم کرنے اور اس کیلئے انتظامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ احتجاج کی جگہ تک رسائی کے لیے ٹریفک پلان ترتیب دیا جائے ،پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے کہ احتجاج پر امن ہوگا،سرکاری املاک کو نقصان نہ پہنچے، نہ تشدد ہو اور نہ ہی ٹریفک بلاک ہو۔
اس موقع پر عدالت عظمی کی طرف سے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو قیادت سے ہدایت لیکر عدالت کو آگاہ کرنے کا کہا گیا اور سماعت میں تھوڑی دیر کا وقفہ کیا گیا ۔ وقفہ کے بعد سماعت شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے عدالت سے استدعا کی کہ تحریک انصاف کو سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت دی جائے،جہاں جے یو آئی نے دو مرتبہ دھرنا دیا تحریک انصاف بھی وہیں احتجاج کرنا چاہتی ہے ،ہم پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کرواتے ہیں۔
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان نے انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے،کمیٹی میں میرے علاوہ فیصل چوہدری، عامر کیانی اور علی اعوان شامل ہیں۔ بابر اعوان نے عدالت سے گرفتار کارکنوں کو رہا کرنے کا حکم دینے کی بھی درخواست کی ۔
سپریم کورٹ نے اس موقع پر تحریک انصاف کے نکات پر اٹارنی جنرل کو وزیراعظم سے ایک گھنٹے کے اندر ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف نے پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی ہے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے اس موقع پر ریمارکس دیئے کہ توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا، ،پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دینگے،شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کرینگے، ایم پی او کے حوالے سے بھی حکمنامہ جاری کرینگے،حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط کا فقدان ہے،ان شاءاللہ عدم توازن ختم ہوجائے گا۔اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ لاہور میں ایک گھر سے اسلحہ برآمد ہوا۔
جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ اسلحہ کہانی کو اب بند کر دیں۔ اس دوران اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہو، حکومتی مذاکراتی ٹیم تشکیل دیدی گئی ہے ،حکومتی مذاکراتی ٹیم میں یوسف رضا گیلانی، ایاز صادق،مولانا اسعد محمود، فیصل سبزواری آغا جان،خالد مگسی، اعظم نذیر تارڑ اور احسن اقبال شامل ہوں گے ۔
دوران سماعت درخواستگزرا کی جانب سے راستوں سے فوری رکاوٹیں ہٹانے کی استدعا کی گئی ۔ جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ابھی کیس ختم نہیں ہوا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے بابر اعوان سے اس موقع پر استفسار کیا کہ احتجاج کب ختم ہوگا،کیا یہ احتجاج لا محدود ہوگا۔ جس پر بابر اعوان نے موقف اپنایا کہ احتجاج کے حوالے سے پارٹی لیڈر شپ فیصلہ کرے گی میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔
اس دوران عدالتی کارروائی پر سیاسی قائدین کو ایک دوسرے پر الزامات لگانے سے روکتے ہوئے جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایسے بیانات نہ دیے جائیں کہ عدالت میں کون کس بات سے پیچھے ہٹا۔ اٹارنی جنرل نے اس موقع پر پی ٹی آئی کے دور حکومت میں تحریک انصاف اور جے یو آئی ف کے درمیان ہونے والا معاہدہ تحریک انصاف کے وکلاء کے حوالے کرتے ہوئے موقف اپنایا کہ پی ٹی آئی نے بطور حکومت جو معاہدہ کیا تھا اس پر عمل کرے۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ معاہدے میں نئی شق کی شمولیت یا ترمیم فریقین کی رضامندی سے ہوگی، عدالتی حکم حتمی نہیں ترمیم بھی ہو سکتی ہے۔ بعد از اں عدالت عظمی نے معاملہ پر مزید سماعت (آج )جمعرات تک ملتوی کر دی ۔