اسلام آباد۔19جون (اے پی پی):سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس میں ججز ٹرانسفر کا صدارتی نوٹیفکیشن برقرار رکھتے ہوئے ججز کی سنیارٹی کے تعین کے لیے معاملہ صدر مملکت کو بھجوا دیا اور مختصرتحریری فیصلے میں 3-2 کی اکثریت سے آئینی درخواستیں نمٹا دیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ ججز ٹرانسفر و سنیارٹی کیس کی سماعت جمعرات کو جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی ۔ بنچ کے دیگر اراکین میں جسٹس نعیم اختر افغان ، جسٹس شاہد بلال حسن ،جسٹس صلاح الدین پنھور اور جسٹس شکیل احمد شامل تھے ۔سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بینچ کے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس صلاح الدین پنہورنے اکثریتی فیصلے میں کہا ہے
کہ صدر پاکستان کو آرٹیکل 200کے تحت ہائیکورٹ کے جج کو ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ اختیار آرٹیکل 175 کے تحت ججوں کی تقرری سے بالکل الگ ہے اور دونوں ایک دوسرے سے متصادم نہیں ۔ تبادلے کو تقرری سمجھنا آئین کی روح کے منافی ہے۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ تمام عہدے صرف جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ذریعے ہی پر کیے جانے چاہئیں تو یہ مفروضہ آئین کے معماروں کے ارادے کے خلاف ہو گا۔ ٹرانسفرایک الگ آئینی شق کے تحت کی جاتی ہے، جو جوڈیشل کمیشن سے آزاد ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ایکٹ 2010کی دفعہ دو صرف تقرری سے متعلق ہے۔ اس کو تبادلے پر لاگو نہیں کیا جا سکتا اور یہ آئین کے آرٹیکل 200 کو محدود نہیں کر سکتی۔ اس لیے اس قانون کو بنیاد بنا کر تبادلے کو کالعدم قرار دینا درست نہیں ہوگا۔
عدالت نے واضح کیا کہ آرٹیکل 200 کے تحت صدر پاکستان کا اختیار غیر محدود نہیں بلکہ چار درجاتی طریقہ کار سے مشروط ہے۔ ان میں جج کی رضامندی، چیف جسٹس پاکستان سے مشاورت، دونوں متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے مشاورت اور عوامی مفاد کا جائزہ شامل ہے۔ اگر کسی جج نے ابتدا میں ہی تبادلے سے انکار کر دیا، تو معاملہ وہیں ختم ہو جاتا ہے۔ اگر رضامندی ہو، تو بھی مشاورت کا عمل ضروری ہے۔ یہ سب مراحل عدلیہ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں، اس لیے یہ عدلیہ کی آزادی پر کوئی اثر نہیں ڈالتے۔ عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ یکم فروری 2025 کا صدارتی نوٹیفکیشن آئین کے مطابق ہے اور اسے غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے ججز کا اسلام آباد ہائیکورٹ کا تبادلہ برقرار رکھا گیا ہے۔ اکثریتی فیصلے میں مزید کہا گیا ہے
کہ چونکہ سنیارٹی معاملہ ایک ہائیکورٹ کی اندرونی سنیارٹی کا نہیں بلکہ دیگر ہائیکورٹس سے منتقل ہونے والے ججز کا ہے، اس لیے اس پر ایک الگ پالیسی درکار ہے۔ ملک میں ہائیکورٹ ججز کی کوئی ”آل پاکستان سنیارٹی لسٹ “ موجود نہیں، اس لیے تبادلے کے وقت اس حوالے سے بھی وضاحت درکار ہے۔فیصلے میں کہا گیا کہ تبادلے کے نوٹیفکیشن کو ڈسٹرب کیے بغیر، اس معاملے کو جزوی طور پر صدر پاکستان کو بجھوایا جاتا ہے تاکہ جلد از جلد ٹرانسفر ججز کے سروس ریکارڈ کی جانچ/جائزہ کے بعد سنیارٹی کا تعین کیا جا سکے جس میں یہ سوال بھی شامل ہے کہ آیا ٹرانسفر مستقل یا عارضی بنیادوں پر ہے۔ اس وقت تک جب تک کہ صدر پاکستان کی جانب سے نوٹیفکیشن/آرڈر کے ذریعے سینیارٹی اورتبادلے کی نوعیت (مستقل یا عارضی) کا تعین کیا جاتا ہے
جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے طور پر فرائض انجام دیتے رہیں گے ۔ فیصلے میں کہا گیا کہ تمام متفرق درخواستیں بھی اسی فیصلے کے تحت نمٹا دی گئی ہیں۔کیس کی سماعت کرنے والے پانچ رکنی آئینی بینچ کے دو ججز جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شکیل احمد نے اپنا اختلافی نوٹ بھی جاری کیا ہے