سپریم کورٹ کے آ ئینی بنچ نے فوجی عدالتوں کو محفوظ فیصلوں کا اعلان کرنے کی مشروط اجازت دے دی

153

اسلام آباد۔13دسمبر (اے پی پی):سپریم کورٹ کے آ ئینی بنچ نے فوجی عدالتوں کو عام شہریوں سے متعلق مقدمات میں محفوظ کئے گئے فیصلے کرنےکی مشروط اجازت دے دی ہے تاہم حتمی نتیجہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت سویلین کے ٹرائل سے متعلق متفرق انٹرا کورٹ اپیل (آئی سی پیز) میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط قرار دیا ہے۔

بنچ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے محفوظ فیصلوں کے مطابق رہا ہونے والے ملزمان کو فوری رہا کیا جائے، جو بھی ریلیف دیا جاسکتا ہو وہ دیا جائے جبکہ اس بارے سپریم کورٹ کا حتمی فیصلہ آنے تک سزا یافتہ ملزمان کو سول جیل منتقل کیا جائے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں سے متعلق جمعہ کو اہم ترین سماعت کی۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 103 میں سے 20 ملزمان رہا ہوچکے ہیں جبکہ 2مزید شامل ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو افواج پاکستان میں شمولیت پر مجبور نہیں کیا جاتا، جو بھی فوج میں شامل ہوتا ہے، وہ جانتا ہے کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں اسے آرمی ایکٹ کا سامنا کرنا ہوگا ۔

ایڈووکیٹ خواجہ حارث نے عدالت کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی مجرمانہ عزائم کے ساتھ فوج میں شامل نہیں ہوتا لیکن جب کوئی شخص قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کے بنیادی حقوق معطل ہو جاتے ہیں

۔جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ اگر عدالتیں آرمی ایکٹ کی متنازع شق کو کالعدم قرار دے دیں تو آرمی ایکٹ کے تحت چلنے والے ٹرائل کا کیا بنے گا۔

اگر اس طرح کے مقدمات میں فیصلوں کو تحفظ دیا جاتا ہے، جیسا کہ وزارت دفاع کے وکیل نے کہا تو یہ ملزم کے ساتھ امتیازی سلوک ہوگا۔

عدالت کے استفسار پر، اے اے جی پی نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی کے واقعہ کے بارے میں تمام تفصیلات ان کے دفتر کو موصول ہوئی ہیں اور جلد ہی عدالت میں پیش کی جائیں گی۔عدالت نے سپریم کورٹ میں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد تاریخ مقرر کرنے کے لئے سماعت ملتوی کردی۔