ڈیرہ اسماعیل خان۔7ستمبر (اے پی پی):وزیر اعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں بحالی وتعمیر نو کے لئے بڑے پیمانے پروسائل درکار ہوں گے تاہم متاثرین کو ہر ممکنہ وسائل فراہم کریں گے،ٹانک میں 100 گھروں پر مشتمل بستی کا دو ہفتے بعد افتتاح کریں گے،گھروں کی تعمیر کے لئے نقد رقم دینے یا گھر تعمیر کرکے دینے پر غور کررہے ہیں،بارشوں کی وجہ سے سیلاب کے نقصانات سے بچائو کے لئے چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کرنا ہوگی،دیر پا منصوبے بنانے ہوں گے،متاثرین کی امداد شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گےاور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔وزیراعظم نے بدھ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے سیلاب سے متاثرہ سگو پل کادورہ کیا۔
اس موقع پروزیراعطم کو ٹریفک کی بحالی اور دیگر امدادی سرگرمیوں پر بریفنگ دی گئی،وزیر اعظم کوبتایا گیا کہ سڑکوں اور پلوں کی بحالی کے لئے این ایچ اے نے دن رات کام کیا۔سیلاب متاثرین کی مدد کے لئے تمام ادارے مل کرکام کررہے ہیں۔ اس موقع پر مولانا فضل الرحمن ، وزیرمواصلات مولانا اسعدمحمود، انجینئر امیر مقام بھی موجود تھے۔سگو پل کےدورہ کے موقع پرگفتگوکرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ میں ایک بار پھر مصیبت کی اس گھڑی میں صورتحال کے جائزے کےلئے آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ گزشتہ مرتبہ ٹانک اور ڈیرہ آیا تھاتو اس وقت یہ علاقے حالیہ بارشوں کی تباہی سے پہلے کے ریلے میں مشکل سے نکل رہے تھے۔
اپنےرفقا کے ساتھ جا کر متاثرین کوتسلی دی تھی کہ اس وقت مشکل وقت اور قدرتی آفت ہے لیکن اللہ کی مدد سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ، ادارے اور افواج پاکستان مل کر پسند ناپسند اور سیاست سے بالاتر ہو کر علاقے کی خدمت کے لئے کام کریں گے۔ انہوں نے کہاکہ مولانا فضل الرحمان ، اسعد محمود اور امیرمقام سمیت صوبائی قیادت کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنی بساط کے مطابق بھر پور کام کیا۔ افواج پاکستان کاشکریہ اداکرتے ہیں جنہوں نے ہر جگہ متاثرین کو مدد فراہم کی اور اپنی استعداد سے بڑھ کردن رات انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قمبر شہدادکوٹ اور سندھ کے دیگرمتاثرہ علاقوں میں تاحدنگاہ پانی کھڑا ہے، بلوچستان، خیبر پختونخوا میں تباہی ہوئی ہے۔سوات میں دریا کے اندر تعمیرات سنگین غلطی تھی، وہاں قطعی طور پر تعمیرات کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے تھی، وہاں سیلابی ریلے نے تباہی کی۔ لوئر کوہستان میں 5 افراد 5 گھنٹے تک تندوتیز لہروں میں کھڑے رہے اور اللہ کو پیارے ہو گئے۔ انہوں نے کہاکہ غذر میں گائوں صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ایک خاندان کے 8 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
ایک بچی اور اس کے خاندان کامعذورفرد زندہ بچے ،ان کو یقین دلایا کہ ان کی ہر ممکن مدد کریں گے ۔وہاں کے مقامی لوگوں سے بھی امید ہے کہ ان کا خیال رکھیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس سے پہلے پاکستان میں اس سےزیادہ تباہی نہیں دیکھی۔ گزشتہ حکومت نے وسائل کی بربادی کی ۔ ہم نے سیاست کو ایک طرف رکھ کر خدمت کرنی ہے۔ وفاق میں حکومت مخلوط ہے۔ اس حکومت نے پہلے28 ارب روپے متاثرہ گھرانوں کے لئے مختص کئے۔ 25 ہزار روپے فی خاندان دیئے جا رہے ہیں ۔
ان میں 20ارب روپے شفاف طریقے بی آئی ایس پی کے ذریعے تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے بڑھنے سے حقائق کی بنیاد پر تخمینہ اب 70 ارب روپےتک پہنچ گیا ہے۔ یہ مالی بوجھ وفاقی حکومت برداشت کررہی ہے باقی اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔اس کے علاوہ جاں بحق ہونے والوں کے لئے 10،10 لاکھ فی کس دے رہے ہیں۔ سندھ اور دیگر متاثرہ علاقوں میں لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں۔ وفاقی حکومت چاروں صوبوں ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں متاثرین کے لئے یہ وسائل فراہم کررہی ہے۔ صوبے بھی اپنے وسائل سے دے رہے ہیں۔
انہیں بھی مزید وسائل فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ این ڈی ایم کے ذریعے 2 لاکھ خیمے چاروں صوبوں کو نقصانات کے حجم کے مطابق فراہم کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ این ایچ اے ، وزیر اورسیکرٹری مواصلات متاثرہ شاہراہوں کی بحالی کے لئے دن رات کام کررہے ہیں۔ ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ وفاق یا صوبہ کس کاکام ہے ۔ ہم اپنا کام کررہے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ جن علاقوں میں پانی کھڑا ہے وہاں وبائی امراض کے چیلنج کاسامنا ہے۔ یہاں صحت کی سہولیات کی فراہمی اور متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے لئے کھربوں روپے درکار ہوں گے۔ یہ بہت بڑاچیلنج ہے۔ دوست ممالک کی جانب سے امداد کی فراہمی پر ان کے شکر گزار ہیں۔ متاثرین کو ملنے والی امداد کی ایک ایک پائی شفاف طریقے سے ان تک پہنچائیں گے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حق دار کو ہر صورت اس کا حق دلایاجائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ ٹانک میں ایک مخیر شخص کے مالی تعاون سے 2 کمروں پر مشتمل 100 گھروں کا 2 ہفتے بعد افتتاح کریں گے۔ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوا تو اس کو تمام متاثرہ علاقوں تک بڑھائیں گے۔
انہوں نے کہاکہ سیلاب اور بارشوں سے لاکھوں گھرتباہ ہوئے ہیں۔ ان کو معاوضہ اداکرنا ہے۔ تاہم اس کےلئے یہ سوال اٹھ رہاہے کہ گھروں کی تعمیر کے لئے نقد رقم دی جائے یاگھر بناکردیئے جائیں ۔ اس میں کچھ خدشات بھی ہیں۔ کچھ آسانیاں اور کچھ مشکلات بھی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ موجودہ سیلاب بارش کی وجہ سے ہے۔ مون سون میں سیلاب دریائوں میں طغیانی کی وجہ سے آتا ہے ، اس کے لئے مستقل منصوبہ بندی کرناہوگی۔ چھوٹے ڈیم اور دیر پامنصوبےبناناہوں گے۔ اس صورتحال نے ہر چیزکو تباہ کیاہے۔
اس سے غربت سمیت لمبے عرصے تک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ وہ تمام صوبائی حکومتوں ، اداروں ،افواج پاکستان ،فلاحی تنظیموں کے شکر گزار ہیں جو متاثرین کے لئے کام کررہی ہیں۔ انہوں نے متاثرین سے کہ وہ صبر سے کام لیں۔ آخری فرد اور گھر کی آبادکاری تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وزیراعظم نے کہاکہ میں اپنی ذمہ داری نبھاتےہوئے ہر جگہ جارہا ہوں ۔ متاثرین کو ہر حال میں وسائل فراہم کریں گے۔ ہمیں صبر، اتحاداور اتفاق سے کام لیناہو گا۔
انصاف اور شفافیت ہمارا مطمح نظر ہو گا۔ اس موقع پرپاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانافضل الرحمان نے کہا کہ ہم وزیراعظم کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ اس مشکل وقت میں ہماری دادرسی کی اور خود یہاں تشریف لائے۔ این ایچ اے اور دیگر اداروں نے دن رات کام کیا جس پر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ فوجی جوانوں نے مقامی افراد اور امدادی تنظیموں کے ساتھ مل کر سیلاب میں پھنسے افراد کو نکالا، ہم اس کی دل سے قدر کرتے ہیں۔
متاثرین کے لئے کھانا اور امداد پہنچائیں۔ انہوں نے کہاکہ سیلاب سے بچائو کے لئے مستقل بنیادوں پر منصوبہ بندی اور اقدمات کی ضرورت ہے۔ اگر ایسانہیں کیاگیاتو تباہ کاریاں جاری رہیں گی۔ مفتی محمود ہسپتال میں پانی چڑھ گیا۔ آبادی کو بچانے کے لئے بڑی شاہراہیں کاٹی گئیں۔ این ایچ اے نے فوری کارروائی کرکے شاہراہیں بچائیں۔ بلوچستان میں لوگ ابھی تک پانی میں پھنسے ہیں۔سوات، دیر، کوہستان میں بہت تباہ کاریاں ہوئی ہیں۔ نقصانات کی تما م تفصیل وزیراعظم کی گوش گزار کی ہے تاکہ دل کھول کر متاثرین کی مدد کی جا سکے