سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا

225

اسلام آباد۔13نومبر (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور محصولات کا اجلاس سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر فاروق حامد نائیک، محسن عزیز، سید شبلی فراز، انوشہ رحمان احمد خان، دنیش کمار، منظور احمد اور سید فیصل علی سبزواری نے شرکت کی۔ کمیٹی نے عوامی اہمیت کے متعدد مسائل پر غور کیا، جس میں ٹیکس پالیسی، بینکنگ ریگولیشنز، اور معاشی کارکردگی پر تفصیلی بحث کی گئی ۔اجلاس میں پاکستان اور ایران ٹرانسپورٹ اور کاروبار پر 10فی صد لیوی کا مسئلہ زیر بحث آیا، جو سینیٹر منظور احمد کاکڑ نے 9 ستمبر 2024 کو سینیٹ کے اجلاس میں اٹھایا تھا۔ کمیٹی نے اس مسئلے کو مزید غور کے لیے کمیونیکیشنز کمیٹی کے حوالے کرنے کی سفارش کی، کیونکہ یہ لیوی وفاقی حکومت کی منظوری سے عائد کی گئی ہے اور اس کا تعلق ایف بی آر سے نہیں ہے۔

ایف بی آر کے حکام نے وضاحت کی کہ یہ مخصوص ٹیکس یا ڈیوٹی ان کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ سینیٹر کاکڑ نے پاکستانی ٹرکوں پر ٹیکس لگانے کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا، جس کی وجہ سے 600 سے زائد ٹرک پارکنگ میں کھڑے ہیں۔ کمیٹی نے یہ مسئلہ کمیونیکیشنز کمیٹی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے سینیٹر محسن عزیز کے سوال ایف بی آر کی جانب سے پوائنٹ آف سیل (POS) سروسز کی فیس اور اس کے استعمال کے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ چیئرمین ایف بی آر نے تصدیق کی کہ جعلی پی او ایس رسیدیں جاری کرنے والے کاروباروں کے خلاف نئی پالیسی بنائی گئی ہے، جس میں 5 لاکھ روپے جرمانہ اور دکانوں کو بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ سینیٹر عزیز نے اس سلسلے میں عمل درآمد کی کمزوریوں کو اجاگر کیا اور کہا کہ بازار میں جعلی رسیدیں گردش کر رہی ہیں، جن میں اسلام آباد کی ایک بل پر "ٹینٹیٹو” کا نشان ہے۔

چیئرمین ایف بی آر نے مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے یقین دلایا کہ عمل درآمد کے اقدامات کو جلد مضبوط کیا جائے گا۔کمیٹی میں پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا معاملہ سینیٹر فاروق حامد نائیک نے اٹھایا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ 2027 تک اسلامی بینکنگ کے مکمل نفاذ کا ہدف مقرر ہے، لیکن پیش رفت سست ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ڈپٹی گورنر نے اسلامی بینکنگ پر مزید بحث کی ضرورت پر زور دیا اور کمیٹی کو یقین دلایا کہ کئی بینک تعمیل کی جانب کام کر رہے ہیں۔ اسلامی بینکنگ پر تفصیلی بریفنگ کے لیے ایک الگ اجلاس منعقد کیا جائے گا۔کمیٹی نے دیگر مسائل کا بھی جائزہ لیا، جن میں لاہور میں الائیڈ بینک آف پاکستان میں ادائیگی کے مسائل کی شکایات کو ملتوی کیا گیا اور کراچی میں کسٹمز پریوینٹیو کی غیر مجاز کارروائیوں کے بارے میں سینیٹر دنیش کمار کی شکایت پر غور کیا گیا۔ سینیٹر کمار نے جائز برآمدات میں رکاوٹ ڈالنے والے انسداد اسمگلنگ آپریشنز پر تشویش کا اظہار کیا،

مگر چیئرمین ایف بی آر نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ ایماندار افسروں کا ایک پینل تشکیل دیا جائے گا اور مسئلہ حل ہوگا اور شکایت کنندہ کے خلاف کوئی جوابی کارروائی نہیں کی جائے گی۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے صوبوں میں بینکنگ برانچز کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا، جس سے پتہ چلا کہ 30 جون 2024 تک بلوچستان، خیبر پختونخوا، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان میں 3,334 بینکنگ برانچز کام کر رہی ہیں، جو ملک بھر میں برانچز کا 20% ہیں۔ اس کے علاوہ، مائیکروفنانس بینکوں کی 199 برانچز ان علاقوں میں خدمات انجام دے رہی ہیں، جو ملک کے مائیکروفنانس نیٹ ورک کا 13فی صد ہیں۔کمیٹی نے سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی پالیسی بورڈ کے کردار اور افعال کے بارے میں بریفنگ کو بھی ملتوی کیا۔ چیئرمین ایف بی آر نے یقین دلایا کہ اس معاملے پر وضاحت کے لیے قانونی وزارت کو ریفرنس بھیجا جائے گا۔

کمیٹی نے ایک اور اہم مسئلے پر بھی بات کی، جس میں اے ٹی ایمز سے جعلی کرنسی کا نکلناشامل تھا۔ سینیٹر کاکڑ نے ایک نوجوان کے بارے میں تشویش ظاہر کی، جسے اے ٹی ایم سے جعلی 5000 روپے کے نوٹ ملے تھے۔ الائیڈ بینک آف پاکستان کے سی ای او نے کمیٹی کو یقین دلایا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سیکیورٹی اقدامات کو بہتر بنایا جا رہا ہے ۔