اسلام آباد۔22جون (اے پی پی):سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ ومحصولات نے فنانس بل میں عام لوگوں کے استفادہ کیلئے کلیدی شعبوں کے حوالہ سے اپنی تجاویز اورسفارشات کوحتمی شکل دیدی ہے، کمیٹی نے معیشت کودستاویزی بنانے کیلئے 35ہزارروپے سے زیادہ کی خریداری کوکریڈٹ یاڈیبٹ کارڈ ز کے ذریعے ضروری قراردینے، شمسی توانائی سے متعلق آلات پرسیلزٹیکس کی یکساں شرح لاگوکرنے، سٹیشنری کی آٹھ مخصوص اشیاء پرٹیکسوں کے خاتمہ اورتمام اشیاء پرخوردہ قیمت کے اندراج کولازمی کرنے کی سفارش کی ہے، کمیٹی نے خیراتی حیثیت کی آڑ میں ٹیکس چھوٹ کا استحصال کرنے والی تنظیموں کی نشاندہی کرنے اور معذور افراد کو بنیادی تنخواہ کے 100فیصد کے برابر اضافی الاؤنس دینے کی بھی سفارش کی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات کااجلاس ہفتہ کویہاں پارلیمنٹ ہاوس میں سینیٹرسلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت منعقدہوا۔ اجلاس کے دوران کمیٹی نے منی بل 2024 کی سیلز ٹیکس دفعات پر تفصیلی غور کیا، ۔ اجلاس میں کمیٹی کے اراکین فیصل واوڈا، سینیٹرز شیری رحمان، فاروق حامد نائیک، انوشہ رحمان احمد خان، شاہ زیب درانی،فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اور دیگر متعلقہ محکموں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ کمیٹی نے ٹیکس کی ادائیگی یا غلط رقم کی واپسی کی ذمہ داری سے متعلق ترمیم پر نظرثانی کی اور کائبور کی شرح یا تین فیصد سالانہ، جو بھی زیادہ ہو، پہلے سے طے شدہ سرچارج کو شامل کرنے کی تجویز پیش کی ۔ کمیٹی نے یوٹیلیٹی بل کی ادائیگیوں کو چھوڑ کر پچاس ہزار روپے سے زیادہ کی ٹرانزیکشنز کراس چیک، بینک ڈرافٹ، پے آرڈر یا دیگر کراسڈ بینکنگ انسٹرومنٹ کے ذریعے کرنے اور سیلز ٹیکس انوائس کی رقم خریدار کے کاروباری بینک اکاؤنٹ سے فروخت کنندہ کے اکاونٹ میں منتقل کرنے کی تجویز پیش کی۔
کمیٹی کے ارکان نے سٹیشنری اور روزمرہ کی ضروری اشیاء خاص طور پر بچوں کے دودھ پر ٹیکسوں پر تحفظات کا اظہارکیا اوراس حوالہ سے تفصیلی بحث کی۔ کمیٹی کے اراکین نے بجٹ تجاویز پرتنقید کی اور بتایا کہ یہ آئی ایم ایف کی ترجیحات سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے کمیٹی نے سٹیشنری آئٹمز جیسے رنگین پنسل، پنسل اور جیومیٹری سیٹس پر ٹیکس کی سختی سے مخالفت کی اورکہاکہ اشیاء پر18 فیصدسیلز ٹیکس سے عام آدمی پربوجھ میں اضافہ ہوگا۔ سینیٹرانوشہ رحمٰن نے طبی آلات پرٹیکسوں کے حوالہ سے اپنے تحفظات کااظہارکیااورکہاکہ اس سے صحت کے اخراجات بشمول اینڈوسکوپی، آنکولوجی، یورولوجی، گائناکالوجی، اور ڈسپوزایبل اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ کمیٹی نے بعض خیراتی ہسپتالوں کو ٹیکس چھوٹ دینے کی بنیاد پر بھی سوال اٹھایا، ایف بی آر نے واضح کیا کہ پاکستان سینٹر فار فلانتھراپی (پی سی پی) کو ایسی چھوٹ دینے کا اختیار حاصل ہے۔ کمیٹی نے غیر منافع بخش اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے ہسپتالوں کو عطیہ کردہ سامان کو زیرو ریٹڈ کسٹم ڈیوٹی والے سامان کی طرح چھوٹ دینے کی سفارش کی ۔ سینیٹر انوشہ رحمٰن نے ٹیلی کام شعبہ خاص طور پر سیلولر اور سیٹلائٹ فونز کے لیے مجوزہ ٹیکس ڈھانچے کے حوالہ سے تحفظات کااظہارکیا اور درآمد یا سپلائی کی قدروں کی بنیاد پر مختلف ٹیکس شرح مقررکرنے کی تجویز پیش کی۔کمیٹی نے فنانس بل میں عام لوگوں کے استفادہ کیلئے کلیدی شعبوں کے حوالہ سے اپنی تجاویز اورسفارشات کوحتمی شکل دیدی، کمیٹی نے معیشت کودستاویزی بنانے کیلئے 35ہزارروپے سے زیادہ کی خریداری کوکریڈٹ یاڈیبٹ کارڈ ز کے ذریعے ضروری قراردینے، شمسی توانائی سے متعلق آلات پرسیلزٹیکس کی یکساں شرح لاگوکرنے، سٹیشنری کی آٹھ مخصوص اشیاء پرٹیکسوں کے خاتمہ اورتمام اشیاء پرخوردہ قیمت کے اندراج کولازمی کرنے کی سفارش کی۔ کمیٹی نے خیراتی حیثیت کی آڑ میں ٹیکس چھوٹ کا استحصال کرنے والی تنظیموں کی نشاندہی کرنے، معذور افراد کے لیے بنیادی تنخواہ کے 100فیصد کے برابر اضافی الاؤنس فراہم کرنے اور دور دراز علاقوں میں کام کرنے والے فری لانسرز کو ٹیکس کے لیے عام فری لانسرز سے علیحدہ کرنے کی سفارشات بھی پیش کیں۔ کمیٹی نے کارپوریٹ ڈیبٹ کارڈ کے لین دین کو 5 فیصد اضافی ٹیکس سے مستثنیٰ کرنے کی تجویز بھی پیش کی۔سینیٹر ذیشان خانزادہ نے سابق فاٹا اور پاٹا میں مقامی سپلائیز پر سیلز ٹیکس کی شرح کو 18 فیصد کی بجائے 16 فیصد کرنے اور ان خطوں میں درآمدی سپلائیز پر ٹیکس 30 جون 2025 تک 3 فیصد اور یکم جولائی سے 30 جون 2026 تک 6 فیصد کرنے کی تجویز پیش کی۔