اسلام آباد۔14جولائی (اے پی پی):وزیرخارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم(ایس سی او) خطے کی جیواکنامکس کی حقیقی صلاحیت کے دروازے کھولنے کی کنجی ہے،فضائی، زمینی اور سمندری رابطوں کو ترقی دینے سے ہی ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی اجتماعی سوچ کے ثمرات سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ پاکستان پہلے کی طرح اب بھی امن کا شراکت دار رہے گا۔ افغانستان میں دائمی امن و استحکام کی کوششوں کی تقویت کے لئے ہم ’’ایس۔ سی۔ او‘‘ رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔’’ایس۔سی۔او‘‘ کی مزید توسیع اور نشوونما کے لئے نیشنل کرنسیز اور’’ایس۔سی۔او‘‘ ڈویلپمنٹ فنڈ اور بینک جیسی تبدیلیاں اہم ہیں، ’’ایس۔سی۔او‘‘ خاندان کو اجتماعی معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
بدھ کو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے میں ’’ایس۔سی۔او‘‘ وزرا خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو ’’یوریشین‘‘ (یورپ اور ایشیائ کا میلاپ) قلب میں بین الریاستی تعلقات کے حوالے سے ایک منفرد وجود کے طورپر دیکھتا ہے، اس کے پاس بے پناہ سیاسی اور معاشی صلاحیت موجود ہے۔ یہ دونوں ہی ہماری طاقت ہیں اور اجتماعی چیلنج بھی ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے میں ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی عالمی امور میں آواز نے منفرد اہمیت حاصل کرلی ہے۔ ’’ایس۔سی۔او‘‘ رکن ممالک نے کو رونا عالمی وبا سے نمٹنے کے لئے آگے بڑھے اور انہوں نے نہ صرف اپنی قومی ضروریات کو پورا کیا بلکہ دوستوں، ہمسایوں اور عالمی برادری کی مدد کے لئے بھی ہاتھ بڑھایا۔ ہماری زندگیوں کے اس عظیم ترین بحران میں شاندار کردار ادا کرنے پر میں خاص طورپر چین اور روس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ ہمیں اب اپنی معیشتوں کو پھر سے بحال کرنا ہے اور نئے حالات میں کاروبار کو نئے اور تخلیقی انداز میں چلانا ہے، ہمیں مل کر چلنا ہے ۔
بڑھتی ہوئی غربت کے نتیجے میں درپیش مسائل اور عالمی معاشی کساد بازاری کے بیچ میں پیدا ہونے والی عدم مساوات کا تقاضا ہے کہ ہم مشترک سوچ اپنائیں اور مشترکہ طورپر حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں۔اس وبا نے ہمیں پیغام رسائی بڑھانے اور زیادہ وسیع آبادی تک آواز پہنچانے میں ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹلائزیشن کے منفرد کردار کی اہمیت سے بھی روشناس کرایا ہے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم ’’ای۔کامرس‘‘، ’’ڈیجیٹل اکنامیز‘‘، تجربات کے تبادلے، رائج تخلیقی طریقوں اور نئی ٹیکنالوجیز جیسے اقدامات کی حمایت کریں۔انہوں نے کہا کہ علاقائی سلامتی کے لئے دہشت گردی کا عفریت ایک مستقل مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ’’ایس۔سی۔او‘‘ نے بجا طورپر ہماری اجتماعی سلامتی کے لئے لاحق خطرات میں سنگین ترین خطرے کے طورپر اس کی نشاندہی کی ہے اور ہمارے کثیرالجہتی تعاون کا درست طور پر کلیدی ہدف متعین کیا ہے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی قیادت میں طریقہ ہائے کار کے نتیجے میں دہشت گردی، علیحدگی پسندی، انتہاءپسندی، منشیات کی روک تھام اور کثیرالملکی منظم جرائم کے مشترکہ مسائل سے نمٹنے میں نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ پاکستان مشترکہ سرحدی اور انسداددہشت گردی کی مشقوں میں شرکت کے ذریعے اس سلسلے میں اپنی کاوشیں کررہا ہے جبکہ منشیات اور اس دھندے میں ملوث عناصر کے خلاف جنگ میں اجتماعی کارروائیوں کے ذریعے اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔
عالمی انسانی قوانین کو قطعی فراموش کرتے ہوئے بلاامتیاز طاقت کا استعمال، دیرینہ عالمی تنازعات کو حل کرنے کا یک طرفہ طرز عمل، میڈیا و انٹرنیٹ پر پابندی اور غیرقانونی طورپر قبضہ کئے ہوئے علاقوں کے عوام پر ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی بھی عالمی امن وسلامتی برقرار رکھنے کے لئے یکساں خطرات کا باعث ہے۔ ایسے یک طرفہ اقدامات دوستی وہم آہنگی اور تعاون کا علاقائی ماحول پیدا کرنے کے ہمارے مشترکہ اہداف کے مدمقابل ایک منفی ماحول پیدا کرتے ہیں جنہیں ہر قیمت پر روکنا ہوگا۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ اتفاق رائے کے ذریعے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اصلاحات کی ضرورت محض ایک پسند کا معاملہ نہیں بلکہ یہ ناگزیر امر ہے تاکہ اسے زیادہ نمائندہ، جمہوری، موثر اور جوابدہ ادارہ بنایا جاسکے۔افغانستان کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں امن واستحکام ’’ایس۔سی۔او‘‘ فضاء میں علاقائی سلامتی پر انتہائی اہم اثرات کا حامل ہے۔ ایک مشترکہ ذمہ داری کے طورپر پاکستان نے امن عمل میں اپنے حصے کا کردار ادا کیا تاکہ مذاکرات کے ذریعے جامع، اجتماعیت کا حامل، اور وسیع البنیاد سیاسی تصفیہ ہو جو افغان قیادت میں افغانوں کو قبول ہو۔امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاءکے نتیجے میں رونما ہونے والی صورتحال اور امن سمجھوتہ کی عدم موجودگی انتہائی باعث تشویش امر ہے۔
حالیہ ہفتوں میں تشدد میں اضافے نے پہلے سے غیرمستحکم صورتحال کو مزید ابتر بنادیا ہے۔ افراتفری اور تنازعہ کی شدت کے خطرات بڑھ رہے ہیں جس سے ’خرابی‘ پیدا کرنے والوں کو مزید جگہ ملے گی جو چاہتے ہیں کہ افغانستان اور خطہ عدم استحکام سے دوچار رہے۔ ہم تمام افغان فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ تعمیری انداز سے شریک کار ہوں مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل تلاش کرنے کے لئے کام کریں۔شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان اپنے حصے کے طور پر پہلے کی طرح اب بھی امن کا شراکت دار رہے گا۔
افغانستان میں دائمی امن و استحکام کی کوششوں کی تقویت کے لئے ہم ’’ایس۔سی۔او‘‘ رکن ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔علاقائی شراکت داروں سے قریبی تعلقات استوار کرنے کے علاوہ’’بیلٹ اینڈ روڈ اقدام‘‘ (بی۔آر۔آئی) اور ’’یوریشین اکنامک یونین‘‘ کے ابھرتے امتزاج کے درمیان حقیقی صلاحیت کو تعبیر دینے میں ’’ایس۔سی۔او‘‘ ایک کلیدی پلیٹ فارم ہے۔ ’’بی۔آر۔آئی‘‘ کا مثالی وہراول منصوبہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ’’ایس۔سی۔او‘‘ کے علاقائی رابطوں کی استواری اور معاشی یکجائی کے وژن کو تقویت دیتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ’ایس۔سی۔او‘ خطے کی جیواکنامکس کی حقیقی صلاحیت کے دروازے کھولنے کی کنجی رکن ممالک میں وسیع تر رابطوں کو ترقی دینا اور انہیں جوڑنا ہے۔
ہمارا پختہ نکتہ نظر ہے کہ ’’ایس۔سی۔او‘‘ کے اندر رابطوں کی استواری کے لئے اشتراک عمل اور فضائی، زمین اور سمندر کے ذریعے سفری رابطوں کو ترقی دینے سے ہی ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی اجتماعی سوچ کے ثمرات سے مستفید ہوا جاسکتا ہے۔ تاہم ہم نے روڈ ڈویلپمنٹ اور ٹرانسپورٹ سے جوڑنے کے اقدامات کے فقدان کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان تجاویز کو پیش کرتے ہوئے ہمیں یک طرفہ فائدے کے تصورات سے اوپر اٹھنے اور تصادم پر تعاون کو اپنانے کی ضرورت ہے۔اسی طرح اجتماعی طور پر ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی مزید توسیع اور نشوونما کے لئے نیشنل کرنسیز اور ’’ایس۔سی۔او‘‘ ڈویلپمنٹ فنڈ اور بینک جیسی تبدیلیاں اہم ہیں جو منصوبوں کے لئے مالی تعاون کی فراہمی کے لئے وقف ہیں۔ ان اقدامات کے ’’ایس۔سی۔او‘‘ خطے کی ترقی پر دوررس اثرات ہوں گے، انہیں مثبت ذہن کے ساتھ آگے لے کر جانا چاہئے۔
وزیر خارجہ نے خوشحالی اور خطے کو جوڑنے کی ہماری مشترکہ سوچ کو آگے بڑھانے کی غرض سے کچھ تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ اول، ’’ایس۔سی۔او‘‘ خاندان کو اجتماعی معاشی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جو ہمارے پائیدار قومی ترقی کے اہداف سے ہم آہنگ ہو۔ پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لئے سرگرم ہمارے اداروں کو سال میں کم ازکم ایک بار ضرور آپس میں ملنا چاہئے اور تعاون و مشترکہ ترقی کے جذبے سے اپنے بہترین تجربوں اور طریقوں سے ایک دوسرے کو آگاہ کرنا چاہئے۔ دوم، کاروباری شراکت داری کے فروغ کی خاطر ہمیں ’’ایس۔سی۔او‘‘ رکن ممالک کے ’’سی۔ای۔اوز‘‘ اور ’کاروباری حضرات‘ کے درمیان ضروری رابطے پیدا کرنے اور ”ایس۔سی۔او‘‘۔’’سی۔ای۔اوز‘۔کلب“ کے سالانہ میل ملاقات کا طریقہ کار وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے پہلے اجلاس کی پاکستان میں میزبانی میرے لئے باعث مسرت ہوگی۔ سوم، مختلف شعبہ ہائے زندگی کی خواتین کو بااختیار بنانا ’’ایس۔سی۔او‘‘ کے اندر ایک مشترکہ مقصد ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے میں چاہوں گا کہ ”ایس۔سی۔او‘۔’ویمن‘۔’اینٹر پرینورز‘۔’فورم“ قائم کیاجائے۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے کاروبار اور تجارت کے علاوہ تخلیقی فنون سے منسلک خواتین کو جمع کیاجائے تاکہ ’’ایس۔سی۔او‘‘ کی ایک مضبوط شناخت ابھر کر سامنے آئے۔ چہارم، اسی انداز میں میں یہ بھی تجویز کروں گا کہ ’’ایس۔سی۔او‘‘ ممالک کی ’خواتین اراکین پارلیمان کا کاکس‘‘ بھی تشکیل دیاجائے۔ عوام کے نمائندوں کے طورپر خواتین ارکان پارلیمان ایک منفرد نکتہ نظر اور قائدانہ صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کی شمولیت سے گورننس کے طریقوں کی قدر میں اضافہ ہوگا اور انہیں بہتر طورپر سمجھنے میں مدد ملے گی۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ میرا یہ پختہ یقین ہے کہ ممالک کے درمیان تعلقات اور اقوام ایک ساتھ نشوونما پاتے ہیں اوران میں گہرائی تب آتی ہے جب ان ممالک کے عوام یکساں مفادات اور مشترک اقدار سے آپس میں جڑتے ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے پاکستان اپنا کردار ادا کرنے کے لئے پرعزم ہے۔