شہباز شریف گروپ کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں چالان ایف آئی آر اینٹی کرپشن لاہورسپیشل کورٹ سنٹرل میں جمع کرادی گئی ہے،مشیر احتساب شہزاد اکبر کی میڈیاسے گفتگو

86

لاہور۔17دسمبر (اے پی پی):وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہا ہے کہ شہباز شریف گروپ کے خلاف میگا منی لانڈرنگ کی تحقیقات میں چالان ایف آئی آر نمبر 2020/39 ایف آئی اے پی ایس اینٹی کرپشن لاہورسپیشل کورٹ سنٹرل میں جمع کرادی گئی ہے۔

وہ جمعہ کے روز یہاں 90شاہراہ قائداعظم پر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے ۔شہزاد اکبر نے کہا کہ چالان میں شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو نہ صرف مرکزی ملزمان بلکہ 16ارب روپے سے زائد کی منی لانڈرنگ کے اصل فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر ملزمان ٹھہرایا گیا ہے،16ارب روپے سے زائد کی لانڈرنگ بدعنوانی غیر قانونی ذرائع اور تحائف سے حاصل شدہ رقوم پر مشتمل ہے، چالان کو بدعنوانی کی روک تھام کے ایکٹ 1947 اور اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ 2010 میں فوجداری جرائم کے تحت سپیشل کورٹ سنٹرل لاہور میں ٹرائل کے آغاز کیلئے جمع کرایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقاتی ٹیم نے مرکزی ملزمان کی ہدایت پر لاہور اور چنیوٹ کے مختلف بینکوں میں شریف گروپ ، شہباز شریف چپڑاسیوں و کلرکوں کے ناموں پر 2008 سے 2018 تک چلنے والے 28 خفیہ بے نامی بینک اکائونٹس کا پتہ لگایا، فیملی کے ان کھاتوں میں 16 ارب روپے سے زائد کے ڈیپازٹس موصول ہوئے،

اس دس سال کے عرصے میں شہباز شریف مسلسل دو ادوار تک وزیر اعلیٰ پنجاب کے عہدے پر فائز رہے جبکہ حمزہ شہباز شریف ایم این اے اور شریف گروپ/رمضان شوگر ملز لمیٹڈ کے سی ای او تھے، تحقیقاتی ٹیم نے ان 28خفیہ بے نامی بینک کھاتوں میں 17ہزار سے زائد کریڈٹ ڈیپازٹ ٹرانزیکشنز کی کل رقم 16304 ملین روپے کی مکمل منی ٹریل کا تجزیہ کیا، یہ منی ٹریل واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ ان بے نامی کھاتوں میں ایسے افراد اور پارٹیوں کی جانب سے ڈیپازٹ حاصل کئے گئے جن کا چینی کے کاروبار سے کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ غلط ذرائع بدعنوانی اور سیاسی تحائف وغیرہ سے ہونے والی ناجائز کمائی کو ظاہر کرتے ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ مثال کے طور پر چپڑاسی گلزار احمد خان مرحوم کے نام پر ایک بے نامی اکائونٹ میں 5ملین روپے موصول ہوئے جس کے چیک گجرات کے اورنگ زیب بٹ کے تھے۔چالان کے ریکارڈ سے ثابت کیا ہے کہ اس غریب چپڑاسی گلزار احمد خان کے نام پر ایک بے نامی بینک اکائونٹ 12000روپے تنخواہ جس میں مجموعی طور پر 1280ملین لگ بھگ جمع ہوئے تھے 2015میں اس کی موت تک آپریٹ کیا گیاتھا،

اس بے نامی اکاونٹ سے 4 ملین روپے اکاونٹ ہولڈر کی موت کے بعد کسی نے آ کر پیسے نکلوائے وہ کوئی اور نہیں ماڈل ٹائون لاہور میں واقع شریف گروپ ہیڈ کے بلکہ شہباز شریف کے ذاتی کیشئر مسرور انور تھے۔انہوں نے کہا کہ مسرور انور 55 کوارٹرز میں کام کرنے والے کیشئرز میں سے ایک تھے تاہم تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ واحد کیشئر تھا جو میاں شہباز شریف کے ذاتی اکائونٹ کو چلانے ڈیپازٹ کرنے سے نکالنے اور پھر ایم شہباز شریف کو رقم پہنچانے کے مجاز تھے،

مسرور انور حمزہ شہباز اور ایم شہباز شریف دونوں سے سوال کیا کہ آپ کے ذاتی اکائونٹس میں بھاری رقوم کون جمع کرواتا تھا تو وہ کچھ بھی کہنے سے قاصر تھے اور انہوں نے سوال کا جواب دینے سے مکمل طور پر لاتعلقی کا اظہار کیا۔انہوں نے کہا کہ شہباز شریف اس پورے کام کے جد امجد ہیں، 1990 میں بھی حدیبیہ پیپر ملز کیس میں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ انہوں نے بے نامی اکائونٹس استعمال کئے اور اقتدار ختم ہوتے ہی وہ اکائونٹس بند کر دیئے، منی لانڈرنگ ایکٹ 1947 کے تحت ان کے خلاف کارروائی کی گئی ہے جبکہ پراسیکیوشن اچھی نہیں ہوگی تو پراسیڈنگ اچھی اور مکمل نہیں ہوتی، جب چالان جمع کر دیا جاتا ہے تو عوامی مفاد کے کیسز روزانہ کی بنیاد پر سنے جانے چاہئیں۔شہزاد اکبر نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان اور چیف جسٹس ہائی کورٹ سے ہماری گزارش ہے کہ آپ کو حکومتی سطح پر جو تعاون چاہیے ہم کریں گے مگر روزانہ کی بنیاد پر ان مقدمات کی سماعت کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہم باہر سے کہیں لوگ نہیں لائے اسی ملک کے اچھے لوگوں سے سارا کیس انویسٹی گیٹ کروایا ہے جبکہ ان مقدمات کی براہ راست کوریج ہونی چاہئے تاکہ عوام کو پتہ چل سکے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس کا ایک ملزم برطانیہ میں موجود ہے جس کے پاس نیشنیلٹی بھی نہیں ہے، ان کے خاندان کے اسحاق ڈار سمیت 4 کیسز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے تحویل مجرمان یعنی ایکسٹراڈیشن فائل کی تھی برطانیہ کو کیونکہ ان کے ساتھ ہمارا کوئی باقاعدہ معاہدہ نہیں تھا،ابھی تک صرف اسحاق ڈار کے کیس پر ان کے ساتھ ایم او یو ہوا ہے جبکہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اسحاق ڈار نے وہاں اسائلم اپلائی کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف امیگریشن ٹربیونل میں اپیل لے کر گئے ہیں، ابھی فیصلہ آنا باقی ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہو چکا ہے ،اگر ٹربیونل کا فیصلہ ان کے خلاف آتا ہے تو ان کو برطانیہ چھوڑنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے کریمنل جسٹس پیکیج تیار کیا ہے جس کو آئندہ جنوری میں پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔