
اسلام آباد ۔ 31 اگست (اے پی پی) صدر آزاد جموں و کشمیر سردار مسعود خان نے مقبوضہ کشمیر میں عاشورہ محرم کے پرامن جلوس پر بھارتی فوج کی طرف سے طاقت کے اندھے استعمال، آنسو گیس اور پیلٹ گنوں سے 50 سے زیادہ عزاداروں کو زخمی اور سینکڑوں شہریوں کو گرفتار کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے کشمیریوں کی مذہبی آزادی پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ تحریک کشمیر برطانیہ اور سکاٹش ہیومن رائٹس فورم کے زیر اہتمام ”نئے چیلنجز اور نئی امیدوں“ کے عنوان سے مشترکہ ویب کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر آزادکشمیر نے کہا کہ بھارت نے ایک جانب بھارتی ہندوو¿ں کو امرناتھ یاترا کی کھلی اجازت دے رکھی ہے جبکہ دوسری جانب مسلمانوں کو عزاداری سے روک دیا گیا ہے جو ان کی صدیوں پرانی مذہبی روایت ہے۔ کانفرنس سے عالمی آگاہی فورم کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر غلام نبی فائی، برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان افضل خان، مس علیسن تھیو لیس، سکاٹش پارلیمنٹ کے رکن انس سرور، حق خودارادیت کونسل کے کوآرڈینیٹر رنجیت سنگھ صرائی اور مس کلیئر بیڈ ویل نے بھی خطاب کیا۔ کانفرنس سے اپنے افتتاحی خطاب میں صدر سردار مسعود خان نے سکاٹش ہیومن رائٹس فورم کا بطور خاص شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ سکاٹ لینڈ سرزمین پر اس کانفرنس کے انعقاد سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی تحریک کے لئے ایک نیا دروازہ کھلا ہے۔ انہوں نے تحریک آزادی کشمیر کے لئے حمایت حاصل کرنے کے لئے تحریک کشمیر برطانیہ کے صدر فہیم کیانی کی طرف مسلسل ویب کانفرنسز کرانے، نمایاں اراکین پارلیمنٹ سے روابط استوار کرنے، عالمی امور کے ماہرین، رائے سازوں اور ذرائع ابلاغ کو موبلائز کرنے پر ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ صدر آزادکشمیر کانفرنس کے شرکاءکو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ دو دن میں مقبوضہ کشمیر میں دس نوجوان کشمیریوں کو شہید کیا گیا جبکہ دس ہزار کشمیری نوجوان جنہیں بھارتی فوج نے غیر قانونی طور پر حراست میں لیا تھا وہ لاپتہ ہیں۔ خود بھارتی حکام نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس سال جنوری سے اب تک ایک سو اسی نام نہاد جنگجوو¿ں کو مارا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج ہر روز بے گناہ کشمیریوں کو شہید کر کے اور انہیں دہشت گرد قرار دے کر بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بھارتی حکومت کے اعداد وشمار کے برعکس اصل صورتحال کہیں زیادہ گھمبیر اور خوفناک ہے۔ صدر سردار مسعود خان نے کہا کہ اس سال اپریل سے لے کر اب تک بھارتی حکومت نے پانچ لاکھ سے زیادہ بھارتی ہندو شہریوں کو مقبوضہ کشمیر میں لاکر آباد کیا ہے اور ان کا ہدف ہے کہ اگلے دو تین سال میں بیس لاکھ ہندوو¿ں کو متنازعہ علاقے میں آباد کیا جائے گا۔ بھارتی حکومت کی آبادکاری اور نو آبادیاتی پالیسی کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں کوئی شخص اس بات کا تصور بھی نہیں کر سکتا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے انسان اس صدی میں بھی نو آبادیاتی نظام کے خلاف لڑ رہے ہیں چونکہ مقبوضہ جموں وکشمیر ہر اعتبار سے اس وقت بھارت کی کالونی بن چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تنازعہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حل نہ کیا گیاتو نہ صرف بھارت اور پاکستان جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو سکتے ہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیاءکے خطہ کے امن وسلامتی کے لئے بھی سنگین خطرات پیدا ہو سکتے ہیں۔ صدر آزادکشمیر نے کہا کہ اس وقت ہماری سب سے پہلی ترجیح مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو روکنا اور انسانی جانوں کو بچانا ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی موجودہ حکومت ہندوتوا کے نظریے پر گامزن ہے جس کا ہدف یہ ہے کہ وہ جنوبی ایشیاءکو غیر ہندوو¿ں سے پاک کرنا چاہتی ہے اور اس لئے یہ ضروری ہے کہ ہندو بالادستی کی اس تباہ کن طاقت سے غیر ہندو آبادی کو محفوظ کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت کی مودی حکومت نے جنگ کی تین محاذ کھول رکھے ہیں۔ وہ ایک طرف کشمیریوں کے ساتھ لڑرہی ہے اور دوسری جانب اپنے غیر ہندو شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور تیسری جانب اپنے تمام ہمسایہ ممالک کو جنگ کی دھمکیاں دے رہی ہے۔ صدر آزادکشمیر نے اپنے خطاب میں دنیا کی اہم پارلیمانز، قانون سازوں، سکالرز اور عالمی میڈیا کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو درست انداز میں اجاگر کرنے پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہ سلسلہ ا±س وقت تک جاری رکھنا ہو گا جب تک کشمیریوں کی تحریک ایک عالمی تحریک نہ بن جائے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں نے اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کے لئے ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کی ہے اور بھارت کے ظلم کا کوئی ہتھکنڈا انہیں یہ جدوجہد ترک کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم دنیا میں اپنے روابط کا دائرہ کار مزید بڑھائیں، اپنے دوستوں اورحمایتیوں کی تعداد میں اضافہ کریں اور نئے اتحاد اور نیٹ ورک تلاش کریں۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں ممبر پارلیمنٹ مس علیسن تھیو لیس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی حمایت کرتے ہوئے عاشورہ محرم کے پرامن جلوس پر بھارتی فوج کے حملے کی شدید مذمت کی۔ برطانوی پارلیمنٹ کے رکن افضل خان نے کشمیری اور پاکستانی کمیونٹی کی طرف سے مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے ایک مفصل منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمیں کشمیریوں کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت کو آگے بڑھانے کے لئے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں مقبوضہ جموں وکشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی بھارتی کوششوں کو بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس بات پر دکھ کا اظہار کیا کہ بھارت اپنی معاشی اور سٹرٹیجک اہمیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انسانیت کے خلاف اپنے جرائم کی سزا سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور دنیا اس کے جرائم سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہے۔