صوبہ بلوچستان سیلاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وزیر اعظم کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کا عمل جاری ہے، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کی  پریس کانفرنس

اسلام آباد۔22اگست (اے پی پی):وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے کہا ہے کہ صوبہ بلوچستان سیلاب سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، وزیر اعظم کی ہدایت پر سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی کا عمل جاری ہے، بلوچستان میں سڑکوں سمیت انفراسٹرکچر شدید متاثر ہوا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو یہاں وزیر مملکت ہاشم نوتیزئی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم محمد شہباز شریف سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے متحرک کردار ادا کررہے ہیں، سیلاب سے بلوچستان میں ہزاروں ایکڑ زرعی رقبہ بھی متاثر ہوا، سیلاب متاثرین مخیر حضرات کی معاونت کے منتظر ہیں، صوبائی حکومت اس قدرتی آفت کا اکیلے مقابلہ نہیں کرسکتی، آئندہ تین روز کے لئے مزید بارشوں کی پیش گوئی کی گئی ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے ملک میں تیس سالہ ریکارڈ توڈ دیا ہے،صوبے میں بارشوں کے نتیجے میں سیلاب سب سے بڑے پیمانے پر جانی اور مالی نقصان ہوا ہے، بلوچستان میں سڑکوں سمیت انفراسٹرکچر شدید متاثر ہوا ہے۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی آغا حسن بلوچ نے کہا کہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا بہت زیادہ تخمینہ لگایا جارہا ہے، بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت سیلاب سے تباہ ہوگیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بلوچستان کا 95 فیصد علاقہ سیلاب سے متاثر ہوا ہے جس سے جانی اور مالی نقصانات ہوئے ہیں۔ سیلاب سے 225 کے قریب اموات ہوئی ہیں، 40 عورتیں اور 32 بچے بھی جاں بحق ہو ئے ہیں۔ انہوں نے بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافہ ہوسکتا ہے، پی ایم ڈے اے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے تین دنوں میں مزید بارشیں ہونگی جس سے ندی نالوں میں طغیانی آسکتی ہے۔

آغا حسن بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کے نتیجے میں لوگ شدید متاثر ہوئے ہیں اور وہ کسمپرسی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں 6 سو کلومیٹر سڑکیں سیلاب سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں سیلاب سے لوگ نان شبینہ کے متحاج ہوچکے ہیں، صوبہ میں بارشوں اور سیلاب سے بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوچکا ہے۔

آغا حسن بلوچ نے کہا کہ لسبیلہ میں 12 ہزار ایکڑ پر تیار فصلیں تباہ ہوئیں، سیلاب سے صوبے کے بڑی تعداد میں دیہات تباہ ہوئے اور پورے بلوچستان کا ملک کے دیگر حصوں سے زمینی رابطہ منقطع ہے، ان حالات میں بلوچستان کے سیلاب متاثرین کو حکومت کے ساتھ ساتھ مخیر حضرات کی مدد کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ بارشوں نے گزشتہ 30 برس کا ریکارڈ توڑا ہے ، 95 فیصد بلوچستان ڈوب چکا ہے، جتنا نقصان پورے ملک میں ہوا اس کا 60 سے 65 فیصد صرف بلوچستان میں ہوا ہے۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ اب تک صوبے بھر میں 225 اموات واقع ہو چکی ہیں، مرنے والوں میں بڑی تعداد عورتوں و بچوں کی ہے، ان کے علاوہ بلوچستان کے 4 اضلاع نوشکی، لسبیلہ، چاغی اور ژوب سے 11 لاشیں ملی ہیں۔ آغا حسن بلوچ نے کہا کہ مرنے والوں میں 46 عورتیں ہیں اور 32 بچے ہیں، خدشہ ہے کہ اموات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو سامنے آ رہی ہیں، 8 اضلاع جن میں کوئٹہ، پشین، جعفر آباد، خضدار، کوھلو، بار کھان، لسبیلہ، جھل مگسی شامل ہیں میں 13000 سے زیادہ مکانات تباہ ہوچکے ہیں، لاکھوں جانور جو غریب لوگوں کی روزی کا واحد ذریعہ تھے ہلاک ہوچکے ہیں، بجلی کا نظام درہم برہم ہو چکا۔ انہوں نے کہا کہ ہزاروں ایکڑ پر محیط فصلات اور زرعی اجناس تباہ ہوچکی ہیں جو کٹائی کے لئے تیار تھیں، ڈیرہ جمالی، نصیر آباد اور جعفر آباد میں لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، دیہات کا شہروں سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے، ہزاروں لوگ دیہات میں پھنسے ہوئے اور امداد کے منتظر ہیں۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 600 کلومیٹر کی ہائی وے کو نقصان پہنچ چکا ہے، کئی پل بہہ گئے یا ٹوٹ چکے ہیں، کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی آر سی ڈی ہائی وے اور مکران کوسٹل ہائی وے جو جنوبی بلوچستان بالخصوص گوادر بندر گاہ کو کراچی اور پاکستان کے دیگر حصوں سے منسلک کرتی ہے تباہ حال ہوچکی ہے جبکہ انہی سڑکوں سے صوبہ میں فوڈ اور دیگر سپلائز آیا کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران کے مابین ریلوے سروس معطل ہو چکی کیونکہ پٹڑی کے کئی حصے بہہ چکے ہیں، حالیہ بارشوں میں سب سے زیادہ نقصانات بلوچستان میں ہونے کیوجہ صوبے کا انفراسٹرکچر پاکستان کے باقی صوبوں کے مقابلے میں زیادہ زبوں حالی کا شکار ہے، بڑی تعداد میں دوکانیں، مدرسے اور مساجد مکمل تباہ ہوچکی ہیں۔

آغا حسن بلوچ نے کہا کہ 800 سکولز پاکستان بھر میں متاثر ہوئے جن میں سے 600 سے زیادہ صرف بلوچستان میں ہیں، صوبے کو کلائمیٹ کرائسس کا سامنا ہے اور ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔ وزیر اعظم پاکستان اس سلسلے میں بہت متحرک ہیں مگر اتنی بڑی قدرتی آفت سے نمٹنا ریاست کے بس کی بات نہیں۔ آغا حسن بلوچ نے مخیر حضرات اور قومی و علاقائی این جی اوز سے امدادی سرگرمیوں میں معاونت کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ اس موقع پر تمام بین الاقومی ادارے جو ریلیف یا ڈیزاسٹر مینجمنٹ پر کام کرتی ہیں بالخصوص ورلڈ فوڈ پروگرام، یونیسیف، ریڈ کراس سے اپیل کی کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں بلوچستان کے عوام کا ساتھ دیں۔ انہوں نے کہا کہ اسی طرح بین الاقوامی انسانی ریلیف پر کام کرنے والی این جی اوز، وفاقی اور صوبائی ادارے بالخصوص، پاکستان آرمی، ایف سی، صوبائی حکومت اور پی ڈی ایم اے سے امدادی سرگرمیاں مزید تیز کرنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا کہ ایف ایف ڈی 23 اگست سے 26 اگست تک شمالی بلوچستان کے ندی نالوں/دریائوں میں مزید طغیانی کا خدشہ ظاہر کرچکی ہے۔ اس موقع پر وزیر مملکت محمد ہاشم نوتیزئی نے پاکستان کے دوست ممالک اور مسلم امہ سے بھی اپیل کی کہ وہ بارشوں اور سیلاب سے بلوچستان میں ہونے والے نقصانات کے مدنظر رکھتے ہوئے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ وزیر مملکت نے علماءکرام سے اس مشکل گھڑی میں دعاﺅں کی اپیل کی ہے۔