اسلام آباد۔13دسمبر (اے پی پی):اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی عدالت نے سابق چیف جج گلگت بلتستان رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر شائع ہونے پر توہین عدالت کیس میں تمام فریقین سے بیان حلفی طلب کرلیے۔
پیر کے روز سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان خالد جاوید خان،ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نیاز اللہ نیازی،عدالتی معاونین فیصل صدیقی اور ریما عمر، ایڈیٹر عامر غوری، صحافی انصار عباسی اور دیگر عدالت پیش ہوئے جبکہ چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن عدالت پیش نہ ہوئے، رانا شمیم کی طرف سے عدالت میں دی گئی درخواست میں کہاگہاکہ نواسے نے اصل بیان حلفی برطانیہ سے پاکستان بھیج دیاہے جو9 دسمبر کو بھیجا گیاہے اور تین روز میں پہنچ جائے گا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ رانا شمیم نے تحریری جواب میں کہاتھاکہ ذاتی دستاویزات تھیں،عدالت نےسینئرصحافی ناصر زیدی سے استفسار کیاکہ کیا کسی کی ذاتی دستاویزات میڈیا میں شائع ہوسکتی ہیں؟، بین الاقوامی سطح پر میڈیا کے قوانین موجودہیں، ناصر زیدی نے کہاکہ صحافی کا کام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ حقائق بیان کرے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ رانا شمیم نے درخواست میں خود کہا کہ اصلی بیان حلفی نواسے نے بھیجی ہے، درخواست کے مطابق بیان حلفی تین دن میں آئے گا، عدالت نے کہاکہ کسی کی ذاتی دستاویزات شائع کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے، ناصر زیدی نے کہاکہ تاریخ بہت تلخ ہے جو کچھ ہوا یا ہو رہاہے، چیف جسٹس نے کہاکہ مجھے تاریخ سے کوئی غرض نہیں مجھے کیس سے غرض ہے، میں یہاں کوئی سیاسی تقریر نہیں سنوں گا، میری عدالت پر سوال اٹھایاگیاہے میں اس کا ذمہ دار ہوں، آپ سب نے تو کوڑے کھائے ہیں وہ بھی تو تلخ حقیقت ہے، صرف اتنا بتائیں کہ یہ خبر دینا صحافتی قوانین کے خلاف ہے یا نہیں؟۔
ہمارے پاس اس عدالت میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کا کیس موجود ہے،رانا شمیم کہتے ہیں کہ بیان حلفی کو نوٹری پبلک نے منظر عام پر لایا،کیا ہم اٹارنی جنرل سے معاونت لیکر نوٹری پبلک کو نوٹس کریں ،کیا صحافت میں آپ کسی کے ایڈمنسٹریٹشن آف جسٹس میں مداخلت کریں گے ؟ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی تین سال بعد زندہ ہو اور آکر عدلیہ پر کوئی بھی بات کرے،اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کی خبر ٹھیک ہے آپ نے اچھا کیا تو مجھے بین الاقوامی قوانین سے سمجھائیں،آپ کسی بین الاقوامی صحافی کا نام دے انکو عدالتی معاون قرار دے کر رائے طلب کریں گے،لیکن مجھے آپ پر اعتماد ہے آپ ہی عدالت کو مطمئن کریں، اس عدالت پر لوگوں کی بد اعتمادی ہو، یہ برداشت نہیں کرونگا۔
اگر آپ کہتے ہیں کہ ایسا تو ہوتا آیا ہے تو یہ واضح کردوں، یہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہے،مجھے قانون سے بتائیں تاریخ سے بتائیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا بتائیں،یہ اسلام آباد ہائیکورٹ ہے ، سب کی زمہ داری میری ہے، مجھ سمیت تمام ججز احتساب کے لیے تیار ہیں ،اٹارنی جنرل نے کہاکہ رانا شمیم نے خود کہاکہ میں اس کو میڈیا میں شائع نہیں کرنا چاہتا تھا، بیان حلفی میڈیا میں شائع ہوا اور کیسے ہوا یہ رانا شمیم خود بتا سکتے ہیں، اٹارنی جنرل نے رانا شمیم پر فردجرم عائد کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہاکہ شواہد ہیں کہ بیان حلفی رانا شمیم نے خود لیک کیا۔
انصار عباسی نے کہا کہ رانا شمیم نے کہاکہ میں نے بیان حلفی نہیں دیا مگر رانا شمیم نے تو مجھے خبر شائع کرنے کے بارے روکا ہی نہیں ہے، عدالت نے استفسار کیاکہ آپ کے خیال میں چیف جسٹس آف پاکستان رجسٹرار کو کال کرنے کا کہیں گے، یا کسی جج کے سامنے خود کال کرے گا، جن دنوں کی یہ بات ہے ان دنوں تو نہ ہی کوئی اپیل دائر ہوئی اور نہ ہی کچھ اور، عدالت نے انصار عباسی کو ہدایت کی کہ بین الاقوامی میڈیا قوانین پر عدالت کو مطمئن کریں، آجکل سچ جھوٹ اور جھوٹ سچ بننے لگے ہیں، انصار عباسی نے کہاکہ انشاء اللہ ہم کبھی جھوٹ کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، عدالت نے کہاکہ نہ آپ اہم ہیں اور نہ ہم، سب سے زیادہ یہاں کے عوام اور سائلین اہم ہیں۔
فردوس عاشق اعوان توہین عدالت کیس میں اس عدالت نے اپنے لئے معیارات طے کئے ہیں،اٹارنی جنرل نے کہاکہ انصار عباسی اور رانا شمیم کے بیانات میں واضح فرق ہے،رانا شمیم نے جو بیان حلفی جمع کرائی، انصار عباس جوابی بیان حلفی جمع کرائیں،عدالت نے انصار عباسی سے کہاکہ آپ نے اور کچھ نہیں کرنا بس عدالت کو مطمئن کریں کہ آپکی خبر قانون کے مطابق ہے یا نہیں ،عدالت نے انصار عباسی کو شائع شدہ خبر پڑھنے کی ہدایت کی اور کہاکہ آپ نے جو بھی بتانا ہے بیان حلفی میں بیان کرکے جمع کرائیں، عدالت نے سماعت میں وقفہ کردیا جس کے بعد دوبارہ سماعت شروع ہونے پر چیف جسٹس نے کہاکہ بیان حلفی خبر سے ایسے لگا کہ عدالت ہدایات لیتی تھی،زیر التوا اپیلوں سے متعلق اس طرح تو رپورٹنگ نہیں کر سکتی، اگر یہ عدالت کوئی آرڈر جاری کرے تو وہاں لندن میں نوٹری پبلک کی انکوائری شروع ہو جائے گی۔
عدالت کے زیر التوا کیسز کا ذمہ دار ہوں،آپ بین الاقوامی صحافتی نارمز بتا دیجیے گا کہ کیا آپ نے ٹھیک کیا ہے؟ کیا یہ فئیر رپورٹنگ میں آتا ہے ،ڈیلی ٹیلی گراف اور گارجین میں ان کے ایڈیٹرز کو تین تین ماہ کی سزا ہوئی ہے،ہمارے پاس بنیادی حقوق کے کیسز ہوتے ہیں فئیر رپورٹنگ کے کچھ قانونی تقاضے ہیں،اس کورٹ کے سامنے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے فیصلے ہر عمل درآمد ہورہا ہے،کیا بلاوجہ اس کورٹ پر کوئی الزام لگایا جا سکتا ہے بین الاقوامی سطح پر کیا دیکھنا چاہتے ہیں،اس معاملے میں کچھ اور چیزیں بھی ہیں جن کا اظہار میں ابھی نہیں کرنا چاہتا،میں توہین عدالت کے اختیارات کو کبھی بھی استعمال نہیں کروں گا لیکن عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچانا ہو تو اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔
تین سال بعد کوئی زندہ ہو کر کہے کہ یہ ہو گیا ہے یہاں اپیل زیر التوا ہے،آپ نام بتا دیں میں اس بین الاقوامی آرگنائزیشن سے کسی صحافی کو عدالتی معاون مقرر کر دیتا ہوں،وہ صحافی عدالت کو بریف دے دے کہ ان حالات میں کیا کرنا چاہیے تھا ۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے عدالتی معاون ریما عمرسے کہاکہ عدالت چاہتی ہے کہ آپ اس کیس میں معاونت کریں،عوام کا اعتماد اس کورٹ سے اٹھانے کی کوشش کی گئی،سائلین اس کورٹ کے سٹیک ہولڈر ہیں، معاون ریما عمر نے کہاکہ سائلین مرکزی سٹیک ہولڈر ہیں،بیان حلفی سے متعلق کچھ سوالات توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتے۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اس کیس سے متعلق ہر سوال اہم ہے، کیمبرج میں میرا مضمون سول لبرٹی تھا،کوئی تنقید کرے تو اس کو ویلکم کرتے ہیں،اس کیس کے حقائق الگ اور یہاں سوال مختلف ہے، اٹارنی جنرل نے کہاکہ توہین عدالت کے نوٹسز ملنے والے اپنے بیان حلفی جمع کرا دیں،اس دوران رانا شمیم کا اصلی بیان حلفی بھی آ جائے گا، اس کے بعد فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی کی جائے، عدالت نے استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت 20 دسمبر تک ملتوی کر دی۔