علما کرام اور مشائخ عظام کی سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کی مذمت، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جائیں’’پیغام پاکستان، میثاق وحدت‘‘ کانفرنس کا اعلامیہ

298

اسلام آباد۔23جنوری (اے پی پی):ملک بھر سے جید اور مستند علما کرام اور مشائخ عظام نے سویڈن میں دائیں بازو کے انتہاپسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھنائونے فعل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار رائے کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ انہوں نے ملک دشمن قوتوں کو کچلنے کیلئے لائحہ عمل پر عملدرآمد جاری رکھنے، لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر مصروف عمل مسلح گروہوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے ، طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کے رویوں کے خاتمہ ، دہشت گردی اور انتہاپسندی کے رجحان کے سدباب اور نام نہاد جہاد کے نام پر بھتہ خوری کی بیخ کنی کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔

ان خیالات کا اظہار بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد میں پیر کو ’’پیغام پاکستان، میثاق وحدت‘‘ کے موضوع پر کانفرنس میں کیا گیا جس میں ملک بھر سے جید اور مستند علما کرام اور مشائخ عظام نے شرکت کی ، دینی قیادت نے موجودہ حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے قومی وحدت اور وطن عزیز کی سالمیت کو دہشت گردی، انتہا پسندی اور نفرت انگیزی جیسے چیلنجز سے نمٹنے کیلئے قومی بیانیہ کی ضرورت پر زور دیا۔

کانفرنس کے اختتام پر جاری کرہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بھر کے تمام ماسلک کے نمائندہ علماء و مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ ”پیغام پاکستان” جو کہ 16 جنوری 2018ء کو ایوان صدر سے جوقومی بیانیہ جاری ہوا تھا وہ قرآن و سنت، دستور پاکستان اور پاکستان قوم کی اجتماعی سوچ کی عکاسی کرتاہے، یہ بیانیہ ہمارے مسائل کا تجزیہ کرتے ہوئے ایسا عملی لائحہ عمل پیش کرتا ہے جس پر عمل کرنے سے نہ صرف قیام پاکستان کے مقاصد حاصل ہو سکتے ہیں بلکہ پا کستان میں ایک ایسا مضبوط، متحد اسلامی اور جمہوری معاشرہ قیام کیا جا سکتا ہے جو اسلامی تہذیب و تمدن کی روحانیت، عدل و انصاف، مساوات، اخوت، باہمی رواداری و برداشت اور حقوق و فرائض میں توازن جیسی خصوصیت سے مزین ہو۔

اس بیانیہ پر عمل کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اسے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاک کروایا جائے اور پورے ملک میں بطور پالیسی نافذ کیا جائے۔علماء کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ کسی بھی نام نہاد دلیل کی بناء پر اسلامی جمہوری پاکستان کی اسلامی حیثیت اور اسلامی اساس کا انکار درست نہیں۔ لہٰذا اس کی بناء پر ملک یا اس کی حکومت، فوج یا دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے اہلکاروں کو غیر مسلم قرار دینے اوران کیخلاف مسلح کارروائی شریعت وقانون کی خلاف ورزی ہے اور ایسا عمل اسلامی تعلیمات کی رو سے بغاوت کا سنگین جرم قرار پاتا ہے۔

علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع سمجھتا ہے کہ نفاذ شریعت کے نام پرطاقت کا استعمال، ریاست کیخلاف مسلح محاذ آرائی، تخریب و فساد اور دہشت گردی کی تمام صورتیں، جن کا ہمارے ملک کو سامنا رہا ہے، قطعی حرام ہیں، شریعت کی رو سے ممنوع ہیں اور بغاوت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہ ریاست، ملک و قوم اوروطن عزیز کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہیں اوران کا تمام تر فائدہ اسلام دشمن اور ملک دشمن قوتوں مو پہنچ رہاہے، لہٰذا ریاست نے ان کو کچلنے کیلئے جو آپریشن کئے تھے اور جوقومی اتفاق رائے سے جو لائحہ عمل تشکیل دیا تھا وہ درست ہے اور اس پر عملدرآمد جاری رکھنا چاہئے مزید یہ کہ اگر دہشت گردی ختم کرنے کیلئے مزید اس قسم کے اقدامات کی ضرورت ہو تو وہ بھی کئے جائیں۔

دہشت گردی کیخلاف جنگ میں علماء کرام اور مشائخ عظام سمیت زندگی کے تمام شعبوں کے طبقات ریاست، مسلح افواج، پولیس، امن و امان قائم کرنے والے تمام اداروں اور عوام الناس کے ساتھ کھڑے ہیں اور پوری قوم قومی بقاء کی اس جنگ میں افواج پاکستان اور پاکستان کے دیگرسیکورٹی اداروں کے ساتھ مکمل اور غیر مشروط تعاون کا اعلان کرتی ہے۔یہ اجتماع پیغام پاکستان کی تجدید کرتے ہوئے یہ عہد دہراتا ہے کہ لسانی، علاقائی، مذہبی اور مسلکی شناختوں کے نام پر جو مسلح گروہ ریاست کیخلاف مصروف عمل ہیں، یہ سب شرعی احکامات کی مخالفت کر رہے ہیں، لہٰذا ریاستی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ ان تمام گروہوں کیخلاف ایسی بھرپور کارروائی کی جائے جس کے بعد یہ لوگ پھر سے سر نہ اٹھا سکیں نیز ان گروہوں کے سدباب کیلئے فوری، دیرپا، پائیدار اور سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہئیں۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ علماء کرام اور مشائخ عظام کا یہ نمائندہ اجتماع یہ سمجھتا ہے کہ طاقت کے بل پر اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی روش شریعت کے احکام کی مخالفت اور فساد فی الارض ہے، نیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور و قانون کی رو سے ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اس قسم کے رویوں کا ہر سطح پر مقابلہ کیا جانا چاہئے اوران کا سدباب کرنے کیلئے تزویراتی، اقدامی، دفاعی، سماجی اور اقتصادی اقدامات کئے جانے چاہئیں۔علمائے مشائخ کا یہ اجتماع سمجھتا ہے کہ دہشت گرد اورفرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے نام نہاد جہاد کے نام پر بھتہ خوری شریعت و قانون کی شدید خلاف ورزی اور سنگین جرم ہے جس سے ہمارے معاشرے میں کاروباری سرگرمی متاثر ہو رہی ہیں اس لئے امن و امان قائم کرنے و الے اداروں کو ان جرائم کیخلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چاہئیں۔

وطن عزیز میں قائم تمام درسگاہوں کا بنیادی مقصد تعلیم و تربیت ہے، ملک کی تمام سرکاری و نجی درسگاہوں کا کسی نوعیت کی عسکریت ,نفرت انگیزی انتہا پسندی,تشدد پسندی اور علاقائیت پرستی سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہئے پیغام پاکستان جاری کرنے کے بعد اس ضمن میں نمایاں بہتری آئی ہے اور اب تعلیمی اداروں میں نسبتاً امن و امان کی صورتحال بہتر ہے یہ اجتماع سفارش کرتا ہے کہ اس قسم کے مضر اثرات سے نوجوانوں کو بچانے کیلئے پیغام پاکستان کی روشنی میں بھرپور کوششیں جاری رکھی جانی چاہئیں۔

دہشت گردی اور نفرت انگیزی کا فکری رجحان ہماری معاشرتی امن کا دشمن ہے۔ اس رجحان کیخلاف فکری جدوجہد تمام اداروں اور افراد کی قومی ذمہ داری ہے۔اسلامی تعلیمات اور ملکی قانون کے مطابق کسی بھی شخص، مسلک یا ادارے کیخلاف اہانت، نفرت انگیزی اور اتہام بازی پر مبنی تحریر و تقریر غیر اسلامی اور غیر قانونی عمل ہے اس جرم کے ارتکاب کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرنا ضروری ہے۔مسلمانوں میں مسالک و مکاتب فکر قرون اولی سے چلے آ رہے ہیں اور آج بھی موجود ہیں ان میں ذدلیل و استدلال کی بنیاد پر فقہی اور نظریاتی ابحاث ہمارے دینی اور اسلامی علمی سرمائے کا حصہ ہیں اور رہی گے، لیکن یہ تعلیم و تحقیق کے موضوعات ہیں ان کو عوام الناس میں انتشار اور تفرقہ بازی کیلئے استعمال کرنا دینی تعلیمات کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔

پاکستان علماء و مشائخ کا یہ اجتماع محسوس کرتا ہے کہ دوسرے ممالک میں موجود کچھ نام نہاد علماء کی طرف سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کیخلاف سرگرم عمل دہشت گرد تنظیموں کے بیانیے اور اقدامات کی حمایت میں اور پاکستان کے سیکورٹی اداروں کیخلاف ایسے بیانات دیئے گئے ہیں جوشرعی احکام اور بین الاقوامی قانون کے صریحاً خلاف وزی ہیں، چنانچہ پاکستانی علماء و مشائخ کا یہ نمائندہ اجتماع اس غیر ذمہ دارانہ عمل کی نہ صرف مذمت کرتا ہے بلکہ حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ اس قسم کے غیر شعی اور غیر قانونی عمل کرنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ چند روز قبل سویڈن میں ایک دائیں بازو کے انتہا پسند کی طرف سے قرآن پاک کی بے حرمتی کے گھنائونے اور شرمناک عفل سے دنیا بھر کے ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہیں، جس کی مذمت کیلئے الفاظ ناکافی ہیں۔ آزادی اظہار کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی آزادی نہیں دی جا سکتی۔ حکومت پاکستان اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے نفرت انگیز علم کی روک تھام کیلیء اپنی ذمہ داری نبھائیں۔سوشل میڈیا کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی استعمال کی وجہ سے ہماری سماجی اقدار کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں اس لئے سوشل میڈیا کو وطن دشمنی، فرقہ پرستی، تشدد، نفرت انگیزی اور دہشت گردی کے فروغ کیلئے استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے۔

پیغام پاکستان سے متعلق سرگرمیوں کے ذریعے عوام الناس خاص طورپر نوجوانوں کی ذمہ داری کے ساتھ سوشل میڈیا کے استعمال کی تربیت کی جانی چاہئے۔ ’’پیغام پاکستان، میثاق وحدت‘‘ پر جن علما کرام اور مشائخ عظام نے دستخط کئے ہیں ان میں ڈاکٹر قبلہ ایاز چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل، مفتی محمد تقی عثمانی صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان، حافظ طاہر محمود اشرفی چیئرمین پاکستان علماء کونسل، مفتی منیب الرحمن صدر تنظیم المدارس اہل سنت پاکستان، ڈاکٹر علامہ محمد حسین اکبر ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، پروفیسر ساجد میر امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث، مولانا عبدالخبیر آزاد چیئرمین رویت ہلال کمیٹی، مولانا مفتی عبدالرحیم صدر جامعة الرشید مجمع علوم اسلامیہ، قاری محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ، پیر نقیب الرحمن عید گاہ شریف راولپنڈی،

حامد سعید کاظمی سابق وفاقی وزیر مذہبی امور، علامہ ضیاء اللہ شاہ بخاری ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، علامہ افتخار حسین نقوی ساب ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، مولانا زاہد الراشدی جنرل سیکرٹری پاکستان شریعت کونسل، پروفیسر نبی بخش جمانی قائم مقام صدر بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد، پروفیسر ڈاکٹر محمد ضیا الحق ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحقیقات اسلامی، مولانا حامد الحق حقانی صدر جمعیت علامئے اسلام(س)، مولانا محمد طیب طاہری جامعہ اشاعت التوحید والسنہ، مولانا عزیز الحسن درویش مسجد پشاور، مولانا طیب قریشی مرکزی خطیب خیبر بختونخوا پشاور، پیر محمد مظہر سعید شاہ ایم ایل اے آزاد جموں وکشمیر، ڈاکٹر عطاء الرحمن جنرل سیکرٹری رابطة المدارس الاسلامیہ، مولانا محمد احمد لدھیانوی امیر اہل سنت والجماعت، مولانا فضل الرحمن خلیل چیئرمین انصارالامہ ،

مفتی نعمان نعیم جامعہ بنوریہ عالمیہ، مولانا محمد شریف ہزاروی جامعہ دارالسلام اسلام آباد، مولانا محمد عادل عطاری کنزل المدارس دعوت اسلامی، مفتی اویس ہزاروی دارالعلوم زکریا اسلام آباد، مولانا زبیر فہیم صدر اتحاد المدارس العربیہ، قاری بشیر احمد پیر سباق شریف نوشہرہ، ندیم بنگش مذہبی رہنما پشاور، علامہ توقیر عباسی نائب صدر مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ، علامہ ناصر المہدی جنرل سیکرٹری مجمع المدارس تعلیم الکتاب و الحکمہ، مفتی گلزار احمد نعیمی سربراہ جماعت اہل حرم پاکستان، پیر سید علی رضا بخاری درگاہ بساہاں شریف آزاد کشمیر، ڈاکٹر راغب حسین نعیمی سابق ممبر اسلامی نظریاتی کونسل، پیر خالد سلطان باہو سجادہ نشین درگاہ حق باہو کوئٹہ، مولانا امتیاز احمد صدیقی چیئرمین علما ومشائخ کونسل آزاد کشمیر،

سید علی گیلانی سجادہ نشین درگاہ بری امام اسلام آباد، پیر حسان حسیب الرحمن ممبر اسلامی نظریاتی کونسل سجادہ نشین عید گاہ شریف، مولانا سید چراغ دین شاہ جامعہ سراجیہ نظامیہ راولپنڈی، علامہ آصف اکبر منہاج القرآن لاہور، پیر محمد امین قادری سجادہ نشین مانکی شریف، مولانا محمد یاسین ظفر نائب صدر وفاق المدارس سلفیہ، مفتی محمد شفیع جامع زکریا پشاور، مفتی مقبول مسئول مجمع العلوم الاسلامیہ، مفتی زبیر یوسف مدنی خطیب جامع دارالامان لاہور، مفتی محمد عبدالرزاق جامع زکریا ملتان، مفتی محمد عثمان یوسف جامع الرشید کراچی، مولانا خلیل الرحمن جامع الرشید کراچی، مفتی صہیب الرحمن انصارالامہ اسلام آباد شامل ہیں۔