حکومت نے مشکل حالات میں متوازن، ترقی پسندانہ اور عوام دوست بجٹ دیا۔مفتاح اسماعیل کی پریس کانفرنس

80
حکومت نے مشکل حالات میں متوازن، ترقی پسندانہ اور عوام دوست بجٹ دیا۔مفتاح اسماعیل کی پریس کانفرنس

اسلام آباد۔23جون (اے پی پی):وفاقی وزیر خزانہ و محصولات مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ عمران خان نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کی نہج پر چھوڑ دیا تھا، ملک کو مالیاتی طور پر مستحکم بنانے سے ہی خودمختاری حاصل کی جاسکتی ہے، حکومت نے مشکل حالات میں متوازن، ترقی پسندانہ اور عوام دوست بجٹ دیا ہے، غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالا گیا ہے، حکومتی اقدامات سے ملک میں مالیاتی استحکام آرہا ہے، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھا کر پاکستان کی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا، بہت خوش آئند بات ہے کہ پی ٹی آئی کو مہنگائی کا احساس ہوگیا ہے، مہنگائی کے کپتان کو اب مہنگائی نظر آرہی ہے۔

جمعرات کویہاں وفاقی وزیراطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیرخزانہ نے کہاکہ آئی ایم ایف کے ساتھ امورپراہم پیش رفت ہوئی ہے اوراس ضمن میں آئی ایم ایف نے کل پریس ریلز بھی جاری کی ہے، اس سے مالیاتی استحکام کویقینی بنانے میں مددملے گی،

وزیرخزانہ نے کہاکہ حکومت نے مشکل حالات میں متوازن، ترقی پسندانہ اورتاریخی بجٹ دیا ہے، بجٹ میں عام آدمی پرکوئی اضافی ٹیکس عائد نہیں کیاگیا اورنہ ہی غریب آدمی پرٹیکسوں کابوجھ ڈالاہے، اس کے برعکس 15 کروڑ سے زیادہ آمدنی رکھنے والے لوگوں پرایک سال کیلئے 1 فیصد ٹیکس،20 کروڑپر2 فیصد، 25کروڑ پر3 فیصد اور30 کروڑ سے زیادہ آمدنی رکھنے والے لوگوں پر4 فیصد سپرٹیکس عائد کیاگیاہے۔کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ اس قابل ہے کہ مشکل وقت میں ٹیکس دے سکتے ہیں، اس کے علاوہ بعض صنعتوں پربھی ٹیکس عائد کیاگیاہے ، چینی کی صنعت پرٹیکس عائدکیاگیاہے، میری اپنی کمپنی کو 20 سے لیکر25 کروڑ اضافی ٹیکس دیناہوگا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ سابق حکومت نے جب بھی ٹیکس لگایا اس سے غریب آدمی متاثر ہوا، پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ غریبوں نے ٹیکس دیا ہے لیکن پہلی مرتبہ ہم امیروں پر یہ بوجھ ڈال رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان کی حکومت نے چار سال میں اتنا قرضہ لیا ہے جو پاکستان کی ساری حکومتیں مل کر نہیں لے سکتیں۔ مجموعی بیرونی قرضوں میں عمران خان کے 4 سالوں میں 80 فیصد قرضہ لیا گیا۔

بجٹ کے چار بڑے تاریخی خسارے عمران خان کے دور میں ہوئے، جب عمران خان حکومت میں آئے تو پاکستان کا قرضہ 25 ہزار ارب روپے تھا اور جب چھوڑ کر جا رہے تھے تو 45 ارب کا قرضہ تھا۔ اگر قرضوں کا بوجھ بڑھایا تو وہ کس خودمختاری کی بات کر رہے ہیں، اصل خودمختاری تب ہوتی جب ہمارے بجٹ کے خسارے کم ہوتے۔ عمران خان نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کی نہج پر چھوڑ دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں پاکستان کی اتنی خراب معاشی حالت نہیں دیکھی تھی۔ صرف پٹرول اور ڈیزل کی مد میں ماہانہ 120 ارب روپے کا خسارہ ہو رہا تھا اور یہ خسارہ وہ صرف اپنی حکومت کو بچانے کی آڑ میں کر رہا تھا کیونکہ جب پٹرول سستا تھا تو اس کی حکومت نے فی لٹر پٹرول پر 20 روپے لیوی اور 10 فیصد سیلز ٹیکس وصول کیا اس وقت انہیں غریبوں کا خیال نہیں آیا تھا۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ آسان نہیں تھا لیکن ایسا کرنا ضروری تھا، حکومت نے یہ فیصلہ کرکے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا۔ عمران خان اور ان کے حامی کہتے ہیں کہ وہ آلو پیاز کی قیمتیں دیکھنے کے لئے نہیں آئے لیکن ہم بتانا چاہتے ہیں کہ وزیراعظم ، میں اور پوری کابینہ حالات کو سدھارنے کے ذمہ دار ہیں چاہے ہماری غلطی ہو یا نہ ہو۔ حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں اس سے ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے۔ کراچی سٹاک ایکسچینج میں تیزی آئی ہے، آج ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پانچ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ کل چین نے پاکستان کے لئے 2.3 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے۔ چینی بنکوں کے کنسورشیم نے اس ضمن میں معاہدے پر دستخط کئے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کر چکا ہے، کل یا پرسوں تک یہ معاونت پاکستان کو موصول ہو جائے گی۔

اس کے علاوہ چین نے محفوظ ڈیپازٹس جن کی مدت ختم ہو رہی تھی، کو ری رول کردیا ہے۔ ہم چین کے مشکور ہیں کہ چین نے خود یہ اقدام اٹھایا ہے۔ پاکستان نے درخواست بھی نہیں کی تھی۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان غریب پرور ہونے کی بات کرتے ہیں، ان کی چار برسوں میں چینی کی قیمت کم کیوں نہیں ہوئی۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت پچاس سے 55روپے تک فی کلو چینی کی قیمت چھوڑ کر گئی تھی، عمران خان کے دور میں یہ 150 روپے تک بھی گئی ہے۔

قوم کو پوچھنا چاہیے کہ شہباز شریف کے دور میں چینی سستی کیوں ہوئی ہے۔ آج بھی یوٹیلٹی سٹورز پر چینی 70 روپے اور آٹا 40 روپے میں دستیاب ہے، اس کے علاوہ گھی بھی رعایتی قیمتوں پر دیا جارہا ہے۔ خوردنی تیل کے مسئلے سے نمٹنے کے لئے وزیراعظم شہباز شریف نے انڈونیشیا کے صدر کو فون کیا اور وفاقی وزیر صنعت و پیداوار مرتضیٰ محمود کو روانہ کیا گیا۔ مرتضیٰ محمود نے دورے کے اخراجات خود برداشت کئے اور اس وقت تک انڈونیشیا میں بیٹھے رہے جب تک خوردنی تیل کی شپ منٹ وہاں سے روانہ نہ ہوئی۔ انڈونیشیا سے ہمیں خوردنی تیل 1900 ڈالر کی بجائے 1500 ڈالر میں ملا ہے، اس سے پاکستان میں گھی اور خوردنی تیل سستا ہوگا۔ یوٹیلٹی سٹورز پر اب بھی 300 روپے میں گھی دستیاب ہے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ عمران خان نے لنگر خانوں کا بھی ڈھنڈورا پیٹا لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ یہ سیلانی کے پیسوں سے چل رہے ہیں، اس پر عمران خان کی حکومت نے ایک روپیہ بھی نہیں دیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ ہم نے سخت اور کڑے فیصلے کئے ہیں، ایسا کرنا آسان نہیں تھا، مشکل وقت ہے مگر آسانی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت پی ٹی آئی کے دوست مہنگائی اور ایس پی آئی کی بات کر رہے ہیں، یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ان کو مہنگائی کا احساس ہوگیا ہے، مہنگائی کے کپتان کو اب مہنگائی نظر آرہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مہنگائی کے اثرات سے عام آدمی کو بچانے کے لئے حکومت خصوصی اقدامات کر رہی ہے۔ وزیراعظم نے آٹھ کروڑ خاندانوں کو 12 ہزار روپے کے علاوہ مزید 2 ہزار روپے ماہانہ دینے کا پروگرام شروع کیا ہے، اسی طرح وسیلہ تعلیم اور دیگر پروگرام بھی جاری رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یوٹیلٹی سٹورز کے دائرہ کار میں توسیع کی جائے گی، مزید فرنچائز کھولی جائیں گی۔ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں موبائل یوٹیلٹی سٹورز عوام کو سستی اشیاء فراہم کریں گے۔

وزیر خزانہ نے کہا کہ قوم کو یاد ہے کہ جب عمران خان امریکا کے دورے سے واپس آئے تو انہوں نے کہا تھا کہ وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں، خودمختاری یہ ہے کہ اپنے ملک کو مالی طور پر مستحکم اور خودمختار بنایا جائے اور غریبوں کی بجائے امیروں پر ٹیکس عائد کیا جائے