اسلام آباد۔17اکتوبر (اے پی پی):قومی فلسطین کانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگی جرائم کی عالمی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں حملے کے دوران عالمی انسانی قوانین کی کھلی خلاف ورزی پر جنگی جرائم کے ذمہ داران کو کٹہرے میں لانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے فلسطین تک انسانی امداد و وسائل پہنچانے کے موثر انتظام، عالمی برادری کی جانب سے فلسطین کو فوری طور پر آزاد فلسطین ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
مسئلہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں جاری بدامنی کا حقیقی حل آزاد و خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام میں ہے۔ پاکستان نے تمام تر دبائو کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھا ہے۔ منگل کو جماعت اسلامی کی جانب سے قومی فلسطین کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ کانفرنس کے اختتام پر مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی قیادت، اہل دانش، علماء، سول سوسائٹی اور عوام کا نمائندہ یہ قومی اجلاس غزہ اور مغربی کنارے پر حالیہ اسرائیلی جارحیت اور فلسطین میں جنم لیتے انسانی المیے پر عالمی طاقتوں کی مجرمانہ چشم پوشی پر شدید احتجاج کرتا ہے۔
غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق وحشیانہ بمباری اور اشیائے رسد کی فراہمی منقطع ہونے سے 16 اکتوبر 2023 تک کم و بیش 900 بچوں سمیت 2670 فلسطینی جاں بحق اور 9600 سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ کاروبار زندگی، عمارات و املاک کی تباہی اس پر مستزاد ہے۔ مغربی کنارے پر اسرائیلی حملے کے نتیجے میں بھی کم و بیش 90 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ غزہ پر حملے کے دوران اسرائیل کی جانب سے ہسپتالوں، تعلیمی اداروں، عبادت گاہوں، سویلین آبادیوں بالخصوص معصوم بچوں، خواتین اور ضعیف شہریوں، رضاکاروں، انسانی حقوق کے لیے کوشاں نمائندوں اور صحافی برادری کو نشانہ بنایا جانا عالمی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، جنگی جرائم کی عالمی عدالت اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اس ضمن میں موثر کردار ادا کرنے اور جنگی جرائم کے ذمہ داران کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل اپنے وحشیانہ اقدامات کو حملوں کا جوابی ردعمل قرار دے کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فلسطینیوں کا حالیہ قدم بذات خود ارض فلسطین پر غیرقانونی قبضے اور ان مظالم کا ردعمل ہے جو اسرائیل کی جانب سے وقفے وقفے سے کیے جاتے رہے ہیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ اجلاس کے شرکاء یہ سمجھتے ہیں کہ تنازعہ 7 اکتوبر 2023 کو شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا آغاز فلسطینیوں کے و طن پر قبضے سے ہوا۔ انہیں ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے، ان کی بستیوں پر قابض ہونے کا یہ سلسلہ 75 سال سے جاری ہے۔ اس لیے ایک جانب جہاں حالیہ تشدد کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے، وہیں تنازعے کا حقیقی اور پائیدار حل تلاش کرنا بھی بہت اہم ہے۔ مسئلہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں جاری بدامنی کا حقیقی حل آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام ہے۔ عالمی برادری فلسطین کو فوری طور پر آزاد ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت تسلیم کرے۔ طاقتور ممالک کی حکومتوں، اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کو غزہ پر اسرائیلی جارحیت روکنے کے لیے موثر اور فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
نیز غزہ کے محبوس شہریوں کے لیے خوراک، پانی، بجلی، تیل اور علاج جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے۔ اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر عملی اقدام کریں اور عام شہریوں کی جغرافیائی و سیاسی وابستگیوں سے قطعِ نظر ان کا تحفظ یقینی بنائیں۔ مہذب دنیا کا فرض ہے کہ وہ ایسی ریاست کو سندِ جواز فراہم کرنے سے احتراز برتے۔ عالمی برادری خطے میں کوئی نیا انسانی المیہ رونما ہونے کا انتظار کیے بغیر اپنی ذمہ داری کا ادراک کرے اور اسرائیل پر دبائو ڈال کر مزید بمباری، زمینی آپریشن اور محاصرے سے روکے۔ خطے کے ممالک سفارتی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تنازعے کے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لائیں،
غزہ کو انسانی امداد و وسائل کی بلاتعطل فراہمی یقینی بنائیں، نیز دیرپا امن اور تنازعے کے حتمی و منصفانہ حل کے لیے اقوامِ متحدہ موثر اور ٹھوس لائحہ عمل تشکیل دے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ چند مسلم ممالک نے اس مسئلے پر نمایاں آواز اٹھائی ہے تاہم اسرائیلی جارحیت کی سنگینی مدنظر رکھتے ہوئے مسلم حکومتوں کا مجموعی ردعمل کسی بھی طرح تسلی بخش قرارنہیں دیا جا سکتا۔ مسلم حکومتوں اور اداروں کو باہم مشاورت سے متفقہ ردعمل دینا چاہیے اور عملی اقدامات کے ذریعے عالمی طاقتوں پر زور دینا چاہیے کہ وہ اسرائیل کو وحشیانہ اقدامات سے روکنے میں فوری کردار ادا کریں۔
او آئی سی جس کا قیام ہی القدس کے تحفظ کے لیے ہوا تھا، کو موثر کرتے ہوئے تنظیم کا فوری اجلاس بلایا جائے اور متفقہ حکمتِ عملی طے کی جائے۔ او آئی سی اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ اسلامی ممالک ان تمام ریاستوں کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظرثانی کریں جو اسرائیل کے وحشیانہ اقدامات کی حمایت اور سرپرستی کر رہی ہیں۔ مسلم دنیا اہلِ فلسطین کو خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے ”عالمی فلسطین فنڈ” قائم کرے اور فلسطین تک رسائی حاصل کرکے انسانی امداد و وسائل کی فراہمی یقینی بنائے۔
اس ضمن میں فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک کو روایتی کردار سے آگے بڑھ کر ذمہ داری نبھانی ہوگی۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ فلسطین کی جدوجہد آزادی کے لئے فلسطینیوں کی تمام تنظیموں کے درمیان یگانگت اور ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ حالیہ جنگ کے دوران اسرائیل کے غیرحقیقت پسندانہ اور جارحانہ موقف کی حمایت کرنے والے، یا اس پر خاموشی اختیار کرنے والے ممالک اور حکومتوں کو سمجھنا چاہیے کہ مادی طاقت اور اسباب نہ حق کی علامت ہوتے ہیں اور نہ کامیابی کی ضمانت۔ اکیسویں صدی میں ہونے والی کئی جنگوں نے اس حقیقت پر مہر ثبت کر دی ہے۔
اقوام اور ریاستوں کو نام نہاد قومی مفاد اور ملکی تعصبات کی بنا پر درست اور غلط کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی اور مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی جارحیت پر عالمی ضمیر کی خاموشی جارح قوتوں کو مزید مظالم کے لیے شہہ دے رہی ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا کہ اہلِ دانش اور پالیسی ساز حلقوں کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قومی، گروہی اور علاقائی مفادات کی بنیاد پر قائم موجودہ عالمی نظام درحقیقت دنیا کو تباہی کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ ریاستوں پر مسلسل دبائو ڈالا جانا چاہیے کہ وہ مفادات کو اصولوں پر ترجیح دینے کی بجائے اپنی حکمت عملی اور فیصلے اصولوں کی بنیاد پر ترتیب دیں۔
اعلامیہ میں کہا گیا کہ یہ اجلاس تنازعے کے ضمن میں دنیا بھر سے اٹھنے والی انصاف پسند آوازوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جو تمام تر مشکلات اور قومی، مذہبی، نسلی، اور پیشہ ورانہ وابستگیوں سے ہٹ کر اسرائیل کو اس کے دیرینہ مظالم اور غیرمنصفانہ قبضے کے خلاف متنبہ کر رہی ہیں۔ جہاں مغربی میڈیا کے کئی ادارے اپنی گمراہ کن رپورٹنگ اور دوہرے معیارات کے باعث بے نقاب ہوئے ہیں، وہیں فلسطین، مشرقِ وسطیٰ یا دیگر خطوں میں اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرتے وہ صحافی بالخصوص تعریف کے مستحق ہیں جو خطرات کی پرواہ کیے بغیر اصل حقائق دنیا تک پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان نے تمام تر دبائو کے باوجود مسئلہ فلسطین پر اپنے اصولی موقف کو برقرار رکھا ہے۔تاریخی طور پر تنازعے کے دوران تمام اہم مواقع پر پاکستان نے موثر سفارتی و سیاسی کردار ادا کیا ہے۔ اجلاس حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ حالیہ دنوں میں جاری تنازعے میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ مشکل کی اس گھڑی میں اہلِ فلسطین کی امداد اور تعاون کے لیے سرکاری سطح پر ”فلسطین فنڈ” قائم کیا جائے، فلسطینی ہلالِ احمر، اقوامِ متحدہ، اور ترکیہ کی مدد سے فلسطین تک انسانی امداد و وسائل پہنچانے کا موثر انتظام کیا جائے۔