قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست، خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی مادر وطن کی خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں، بیرونی امداد کیلئے ہم نے خودداری، قومی سلامتی اور معاشی مفادات داؤ پر لگائے، سب سے بھاری قیمت عوام نے چکائی، وزیراعظم عمران خان

241

اسلام آباد۔1اپریل (اے پی پی):وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست، خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی بنیادی ستون ہیں جو مادر وطن کی خودمختاری، ترقی اور خوشحالی کے ضامن ہیں، ماضی میں بیرونی امداد کیلئے ہم نے خودداری، قومی سلامتی اور معاشی مفادات دائو پر لگائے، بیرونی امداد کی وجہ سے اپنے عوام کے مفادات کا سودا نہیں کرنا چاہئے، اس بنا پر تشکیل دی جانے والی پالیسیوں کی سب سے بھاری قیمت عوام نے چکائی اور اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا، ہمارے ساڑھے تین سالہ دور میں خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ جمعہ کو اسلام آباد میں ”اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ” سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے بھی خطاب کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ سکیورٹی ڈائیلاگ کے انعقاد پر ڈاکٹر معید یوسف کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، یہ ملک کے مستقبل کیلئے اہم ہے، قومی سلامتی کے کثیرالجہتی مقاصد ہیں، جن ممالک میں غریبوں کے سمندر میں امیر لوگوں کا ایک چھوٹا جزیرہ ہو وہ ملک ہمیشہ غیرمحفوظ رہتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ میں جب مدینہ کی ریاست کی بات کرتا ہوں تو اس کا تصور سمجھنے کی بجائے یہ کہا جاتا ہے کہ ووٹ لینے اور سیاست کیلئے مذہب کو استعمال کرتا ہوں، مدینہ کی ریاست کی بنیاد قانون کی حکمرانی اور فلاحی ریاست تھی، اسی پر انہوں نے دنیا پر حکمرانی کی اور تہذیب و تمدن بدلا، ہماری قومی سلامتی کی بنیاد بھی وہی ہے، اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، جب تک پوری قوم اپنی قومی سلامتی کیلئے کھڑی نہیں ہوتی یہ 22 کروڑ کا ہجوم ہی رہے گا، فوج صرف محدود سکیورٹی دے سکتی ہے، عوام جب قوم بن جائیں تو وہ سب سے محفوظ ملک و قوم بن جاتے ہیں، کیوبا کی مثال سامنے ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی قومی سلامتی کے غیرمحفوظ ہونے کی سب سے بڑی وجہ غیرمساوی ترقی ہے جہاں امیر اور غریب میں فاصلے بڑھے، ایک محدود اشرافیہ نے وسائل پر قبضہ جمایا، غریب کو آگے نہیں آنے دیا، انگلش میڈیم نظام تعلیم کے ذریعے تفریق پیدا کی گئی اور یہ طبقہ سب پر حاوی ہو گیا، صحت اور تعلیم کا نظام تباہ ہوا، صرف امیر کیلئے اچھے ہسپتال یا بیرون ملک علاج کی سہولت میسر تھی، بیروزگاری اور غربت پر ریاست کی جانب سے کوئی مدد نہیں کی جاتی تھی۔

وزیراعظم نے کہا کہ قانون کی حکمرانی کے بغیر دنیا کا کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا، جہاں عوام کو اپنے جان و مال کی حفاظت حاصل ہوگی وہاں وہ عوام ریاست کے امور میں حصہ دار بنیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ اسی تفریق کی وجہ سے ماضی میں ہندوستان فتح کرنے والے بغیر کسی مزاحمت کے دہلی پہنچتے تھے، جہاں عوام کا مفاد نہیں تھا وہاں وہ مزاحمت نہیں کرتے تھے، قبائلی علاقوں میں جرگہ سسٹم کی وجہ سے وہ اپنی آزادی کیلئے مل کر لڑتے تھے، افغانستان نے بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ با بار اپنی قوم کو اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہیں جس میں بتایا گیا کہ 1600 ارب ڈالر سالانہ غریب ممالک سے منی لانڈرنگ کے ذریعے امیر ملکوں میں منتقل کئے جاتے ہیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کو اپنے قیام کے فوری بعد مہاجرین سمیت دیگر بڑے مسائل کا سامنا تھا لیکن اس کے باوجود 1960 کی دہائی میں پاکستان ترقی کے راستے پر گامزن تھا، بعدازاں بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ سے ملک اس راستے سے ہٹ گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ تیسری چیز خودداری اور آزاد خارجہ پالیسی ہے، بیرونی انحصار کی وجہ سے ہمارا بڑا نقصان ہوا اور ہم اپنی صلاحیتوں سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر سکے۔

ہم نے اپنی حماقتوں کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی، آزاد خارجہ پالیسی سے قوم بنتی ہے، اس میں قوم کا مفاد اولین ترجیح ہوتی ہے، ہم نے کبھی اس بات کا جائزہ نہیں لیا کہ افغان جہاد میں شراکت داری سے ہم نے کیا کھویا کیا پایا، اپنے افغان بھائیوں پر بیرونی حملہ آوروں کے خلاف ہم نے ان کی مدد کی لیکن اس کا غیرجانبدارانہ تجزیہ نہیں کیا گیا کہ کیا ہم نے اس جنگ میں افغانوں کی مدد کیلئے شرکت کی یا یہ شراکت داری ڈالروں کیلئے تھی، اگر ہم نے ڈالروں کیلئے یہ کیا تو ہم نے ملنے والی امداد سے بہت زیادہ نقصان کیا، 50 لاکھ افغان مہاجرین کا سامنا کرنا پڑا، فرقہ واریت، منشیات کا سامنا کرنا پڑا، ملک میں کرپشن بڑھی، 2000ء کے بعد ہم نے اپنی پالیسی میں 180 ڈگری کا یو ٹرن لیا، ترقی پذیر ممالک ہم سے آگے نکل گئے، بیرونی امداد پر انحصار سے ہمارے لوگوں میں بہتری نہیں آئی بلکہ اس سے ملک کے مفاد کو قربان کیا گیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی کا حامل نہ ہونے والا ملک کبھی دنیا میں عزت نہیں پا سکتا اور نہ ہی اپنے ملک کے لوگوں کا مفاد عزیز رہا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے آزاد خارجہ پالیسی کیلئے کوششیں کیں، اپنے ملکی اور عوامی مفاد کو مقدم رکھنے کی کوشش کی، ہمارے ساڑھے تین سال میں خارجہ پالیسی کو جو عزت ملی ماضی میں کبھی نہیں ملی۔

انہوں نے کہا کہ روس کے حالیہ دورہ پر ایک طاقتور ملک ہم سے ناراض ہے، ہندوستان روس سے تیل کا خریدار ہے لیکن اس کی پوری مدد کی جا رہی ہے، برطانیہ کے ایک ذمہ دار کا بیان نظر سے گزرا کہ وہ بھارت کو آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے کچھ نہیں کہہ سکتے جبکہ ہمارے ملک میں اقتدار کیلئے اچکنیں سلوانے والے میڈیا کو یہ انٹرویو دے رہے ہیں کہ امریکہ کے بغیر گزارا نہیں، انہی لوگوں کی وجہ سے ہم اس مقام تک پہنچے ہیں جنہوں نے معاشی مفادات قربان کئے، عوامی مفاد اور وقار کو دائو پر لگایا۔

وزیراعظم نے کہا کہ غیرت مند انسانوں کی ساری دنیا عزت کرتی ہے، ایک طاقتور ملک ہمیں کہتا ہے کہ اگر عدم اعتماد میں وزیراعظم کو شکست نہ ہوئی تو اس کے بہت برے نتائج نکلیں گے، کیا کسی آزاد ملک کو کوئی دوسرا ملک اس طرح دھمکیاں دے سکتا ہے؟ اندرونی معاملات میں ایسے مداخلت کر سکتا ہے؟ یہ سب ہماری غلطیوں کی وجہ سے ہوا ہے کہ ہم انہیں یہ باور کراتے رہے تھے کہ آپ کے بغیر ہم زندہ نہیں رہ سکتے، قومی سلامتی کیلئے قوم اور حکومت ایک ہو جائیں تو کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں ایسے کام کئے جو ترقی یافتہ ممالک بھی نہیں کر سکے، ہم نے ہر شہری کیلئے ہیلتھ کارڈ دیا، سماجی تحفظ کے پروگرام متعارف کرائے جن کا مقصد نچلے طبقے کو اوپر اٹھانا تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ آزاد خارجہ پالیسی میں کئی چیلنج آتے ہیں، ہمارے ایک پڑوسی ملک کی آزاد خارجہ پالیسی کی وجہ سے اسے داد دیتے ہیں جس نے اپنی خارجہ پالیسی میں عوامی مفاد کو مقدم رکھا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سعودی عرب، ترکی اور ایران کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے میں مدد کی، یوکرائن روس تنازعہ میں ہماری غیرجانبداری کی وجہ سے یورپی یونین کونسل کے صدر اور یوکرائن کے صدر نے ٹیلی فون کرکے چین کے ساتھ مل کر اس تنازعہ کے حل میں مدد چاہی، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی سلسلے میں چین کا دورہ کیا اور وہاں روسی اور چینی وزراء خارجہ سے ملاقاتیں کیں۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایسا تب ہی ممکن ہے کہ آپ کسی عالمی بلاک کی سیاست کا حصہ نہ ہوں، قومی مفاد کو مقدم رکھیں، انہوں نے کہا کہ نئے پاکستان میں قانون کی حکمرانی، فلاحی ریاست اور آزاد خارجہ پالیسی بنیادی ستون ہیں، بیرونی امداد کی وجہ سے اپنے لوگوں کے مفادات کا سودا نہیں کرنا چاہئے، بیرونی امداد لے کر پالیسیاں بنانے کی سب سے بھاری قیمت ہماری عوام نے چکائی اور اس کا فائدہ اشرافیہ کو ہوا۔

قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس قومی ڈائیلاگ میں ایشیا کے سات ممالک کے قومی سلامتی کے مشیر شریک ہو رہے ہیں، اس ڈائیلاگ میں ایشیائی سکیورٹی میں تعاون پر غور ہوگا، ایسے فورمز پر اکثر سرکاری حکام شریک ہوتے ہیں تاہم ہم نے اس سے ہٹ کر بھی لوگوں کو دعوت دی ہے۔