قدرتی آفت کہیں بھی آ سکتی ہے ، ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیئے ، بین الپارلیمانی یونین کی ایشیا پیسیفک ریجن کے سیمینار سے شرکاء کا خطاب

اسلام آباد۔13ستمبر (اے پی پی):قدرتی آفت کہیں بھی آ سکتی ہے جغرافیائی سرحدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مہربانی اور ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہیئے ۔ غذائی تحفظ اور غذائیت کی کمی جیسے مسائل کے حل کے لئے قومی سطح پر ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے ، ان خیالات کا اظہار منگل کو آئی پی یو ایشیا پیسیفک ریجن ممالک کے شرکاء نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اجلاس کی صدر نشیں مہناز اکبر عزیز نے کہا کہ اس سیشن کا عنوان” غربت و افلاس اور موسمیاتی تبدیلیاں” ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کو اس وقت موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا ہے جانی و مالی نقصانات کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انسانی جانوں کے ضیاع سمیت اسکول سڑکیں فصلیں پل ریلوے ٹریک تباہ ہوئے گلوبل وارمنگ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اس مسئلے پر ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ ملکر چلنا ہوگا ۔

ایشیائی ممالک کو مل بیٹھ کر اس کا کوئی ٹھوس حل نکالنا ہوگا۔ پاکستان اس صورتحال کا ذمہ دار نہیں ہے ۔ ہم سب کو مل کر غذائی تحفظ کے حوالے سے نجی و سرکاری سطح پر پر قابل عمل اور جامع پالیسی کی تشکیل کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔ پالیسی ساز ادارے صرف اعداد و شمار پر انحصار نہیں کرتے بلکہ عوامی نمائندہ ہونے کی حیثیت سے بہت سے زمینی حقائق سے بھی وہ آگاہ ہوتے ہیں۔

وفاقی وزیر شازیہ مری نے ایشیا پیسیفک ریجن میں غربت و افلاس کے حوالے سے اپنے ورچوئل خطاب میں کہا کہ ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے تحت 2030 تک غذائی قلت کا خاتمہ ہمارا اہم ہدف ہے ورلڈ فوڈ پروگرام کے اعداو شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں 798 ملین لوگ غذائی قلت اور بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ معاشی عدم استحکام اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اس تعداد میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے انہوں نے کہا کہ بچوں میں غذائی قلت کی وجہ سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے جس کی وجہ سے ہمارا مستقبل متاثر ہوگا ۔

انسانی وسائل پر خرچ کر کے ہم ایک بہتر اور معیاری معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت بے نظیر نشوونما پروگرام شروع کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ممالک کے لوگ بڑے پیمانے پر بھوک و افلاس کی صورت حال کا سامنا کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ پاکستان کا گلوبل وارمنگ پیدا کرنے والی گیسز میں حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے مگر حالیہ سیلاب کی وجہ سے بڑے پیمانے پر قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع سمیت کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں ، آٹھ لاکھ سے زائد مویشی ہلاک ہوئے مجموعی طور پر 33 لاکھ لوگ متاثر ہوئے انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کو چاہیے کہ اس صورتحال کا ادراک کرے اور پاکستان کی مدد کرے ۔

سن پروگرام کی روح رواں سلویا کائو فام نے کہا کہ نیوٹریشن پروگرام کے حوالے سے ایس ڈی جیز پر عملدرآمد یقینی بنانے سے انسانی وسائل بہتر ہوسکتے ہیں اور یہی انسانی وسائل کسی بھی ملک کی اقتصادی و معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ غربت کی وجہ سے دنیا کی 30 فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے اس صورتحال پر توجہ دینے کی ضرورت ہے انہوں نے محفوظ اور صحت مند غذا تک مساوی رسائی کو یقینی بنانے کے ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اس ضمن میں غذائی فصلوں کی پیداوار بڑھانی ہوگی اور متاثرہ ممالک کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے لوگوں کھانے پینے کی اشیاء پر سبسڈی دیں ۔تھائی لینڈ کے رکن پارلیمنٹ کروسیڈ ٹان نے کہا کہ لوگوں کو غربت سے نکالنے کے لئے ہمیں موثر حکمت عملی بنانی ہوگی ۔

روس اور یوکرین تنازع سے بھی عالمی سطح پر غربت اور افلاس میں اضافہ ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت لوگ بے روزگاری کی وجہ سے غربت کا شکار ہیں ۔ نیپال کی شرادا دیوی نے کہا کہ ماں اور بچے کے غذائی تحفظ سے ہم اپنا مستقبل بہتر بنا سکتے ہیں ۔ یونیسیف کی ڈاکٹر صبا نے کہا کہ معیاری غذا کی فراہمی نہ صرف بچوں کا بلکہ ہم سب کی صحت کا مسئلہ ہے ۔

پاکستان میں 48 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں اس ضمن میں ہمیں غذائی ایمرجنسی لگانی ہوگی ۔ نیوٹریشن اور غذائی تحفظ کے حوالے سے ایس ڈی جیز اہداف کے حصول کے لئے کام کی رفتار تیز کرنا ہوگی۔