اسلام آباد۔26جون (اے پی پی):قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2025-26ء کیلئے 17ہزار 573 ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ کی بعض ترامیم کے ساتھ منظوری دیدی۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد جبکہ پنشن میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، تنخواہ دار طبقے کو ٹیکس میں واضح ریلیف دیا گیا ہے، ایف بی آر ٹیکس محصولات کا حجم 14 ہزار 131 ارب روپے جبکہ نان ٹیکس ریونیو کا ہدف 5 ہزار 147 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کرتے ہوئے اہل ملازمین کو 30 فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الائونس دیا جائے گا جبکہ مسلح افواج کی ملک میں سکیورٹی کے خطرات کے دوران سرحدوں کے تحفظ کیلئے قابل تحسین خدمات کے اعتراف میں افسران اور سپاہیوں کیلئے سپیشل ریلیف الائونس دیا گیا ہے۔ جمعرات کو وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے یکم جولائی 2025ء سے شروع ہونے والے مالی سال کیلئے وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا ”مالی بل 2025ء” کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی رپورٹ کردہ صورت میں فی الفور زیر غور لانے کی تحریک پیش کی۔
اس کی اپوزیشن کی طرف سے مخالفت کی گئی۔ بل کی پہلی خواندگی کے موقع پر بل کو زیر غور لانے کی مخالفت کرتے ہوئے اپوزیشن کی طرف سے سردار لطیف کھوسہ، بیرسٹر گوہر علی خان، جنید اکبر خان، عاطف خان، عالیہ کامران، امیر سلطان، زرتاج گل وزیر، ملک عامر ڈوگر، شاہدہ اختر علی اور دیگر اپوزیشن ارکان نے کہا کہ بجٹ میں زراعت کو نظر انداز کیا گیا ہے ، کفایت شعاری کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ سرمایہ دار اور غریب لوگ دونوں طبقات ملک سے باہر جانے کے خواہشمند ہیں۔ پٹرولیم پر کاربن لیوی لگانے سے ایندھن مہنگا ہو گا اور ملک میں اشیاء مہنگی ہونگی۔ چھوٹی گاڑیوں پر ڈیوٹیز عائد کرنے سے متوسط طبقہ کا گاڑی خریدنے کا خواب بھی چکنا چور ہو گیا ہے۔ بجٹ میں ٹیکس تو لگائے گئے ہیں ا صلاحات کا ذکر نہیں ہے ایف بی آر میں ریفارمز لانے کی بجائے اس کے اختیارات میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہائی برڈ گاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے ٹیکس کا نفاذ درست نہیں ہے، قابل تجدید توانائی کے شعبہ میں سولر پینلز پر 10 فیصد ٹیکس بھی نہیں ہونا چاہئے۔ سرکاری ملازمین کی بیوائوں کی پنشن کو 10 سال تک محدود کرنا بھی درست نہیں ۔
صنعتوں اور ایکسپورٹس کے حوالے سے اقدامات نہیں ہیں۔ بجٹ میں معروضی حالات کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ ۔ اسد قیصر نے کہا کہ ہم نے رانا ثناء اللہ کو تجویز دی ہے کہ فاٹا اور پاٹا کے عوام پر ٹیکس نہ لگائے جائیں، شہریار آفریدی نے کہا کہ قبائلی ملک کے دفاع کی فرسٹ لائن ہے وہاں کے آئی ڈی پیز کا سب کچھ تباہ ہو گیا ہے۔ وہ جب اپنے گھروں میں جاتے ہیں تو ان سے لینڈ ریونیو کا ریکارڈ طلب کیا جاتا ہے جو زیادتی ہے۔ سپیکر نے مالی بل کو زیر غور لانے کے حوالے سے تحریک ایوان میں پیش کی تو قومی اسمبلی میں پہلی خوانگی کی کثرت رائے سے منظوری دیدی۔ اس کے بعد ایوان میں دوسری خوانگی کا عمل شروع ہوا تو سپیکر نے مالی بل کی شقیں یک بعد دیگرے ایوان میں پیش کیں جن پر اپوزیشن کی طرف سے گوہر علی خان، عالیہ کامران، صاحبزادہ صبغت اللہ، مبین عارف، علی سرفراز، شہرام خان، شاندانہ گلزار، خواجہ شیراز محمود، چنگیز احمد خان، علی جدون، حمید حسین، اسامہ میلہ، رانا عاطف اور دیگر نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جائیدادوں کی ٹرانسفر پر ٹیکسوں میں کمی لانے، کلائمٹس سپورٹ لیوی ، کسٹم کے شعبہ میں اصلاحات، ایف بی آر کو ڈیجیٹائز کرنے، کسٹم کمانڈ فنڈ قائم نہ کرنے، بڑی بڑی لینڈ کروزر اور بھاری گاڑیاں وزراء اور سرکاری افسران سے واپس لینے ، اشیاء خوردونوش کے درآمدی خام مال پر ٹیکس نہ لگانے
درآمدی خام مال پر کسٹم ڈیوٹی اور دیگر چارجز کم کرنے سمیت دیگر امور پر اپنی اپنی ترامیم کے حق میں دلائل دیئے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اپوزیشن کی تمام ترامیم کی مخالفت کی جس کی بناء پر قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی تمام ترامیم مسترد کر دیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی طرف سے پیش کردہ ترامیم کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ ایک موقع پر اپوزیشن نے جب رائے شماری کو چیلنج کیا تو ایوان کے 201 ارکان نے حکومتی ترمیم کے حق میں اور اپوزیشن کے 57 ارکان نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیئے اس طرح حکومتی ترامیم کی قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظوری دی۔ بعد ازاں تحریک کی منظوری کے بعد علیحدہ فہرست میں درج ترامیم کی منظوری لی گئی۔ سینیٹ کی جانب سے بھجوائی گئی تجاویز میں سے بعض تجاویز کو ترمیم کے بعد مالی بل کا حصہ بنایا گیا۔ مالی بل کی شق وار منظوری کے بعد وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے یکم جولائی 2025ء سے شروع ہونے والے مالی سال کیلئے وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا بل مالی بل 2025ء منظوری کیلئے پیش کیا
جس کی ایوان نے منظوری دیدی۔ مالی بل کے مطابق چار سال میں اضافی کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے، پانچ سال میں ریگولیٹری ڈیوٹیز کے خاتمے، کسٹم ایکٹ 1969 کے پانچویں شیڈول کا پانچ سالوں میں اختتام، کل 4 کسٹمز ڈیوٹی سلیوز اور زیادہ سے زیادہ کسٹم ڈیوٹی کی حد 15فیصد تک لانے کی ٹیرف اصلاحات کو قومی ٹیرف پالیسی 2025-30 کا حصہ بنایا جا رہا ہے جنہیں مرحلہ وار لاگو کیا جائے گا۔ مالی سال 2025-26ء میں پی آئی اے اور روزویلٹ ہوٹل، جینکوز اور ڈسکوز جیسے کلیدی اثاثوں کی نجکاری کے عمل کو مکمل کیا جائے گا۔ ایک نیا کلین فنانسنگ فیسلٹی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے جس کے تحت بینک چھوٹے کسانوں کو بغیر کسی ضمانت کے ایک لاکھ روپے تک کے قرضے فراہم کریں گے۔ یہ رقم ڈیجیٹل سسٹم کے ذریعے کسانوں کے ای والٹس میں ٹرانسفر کی جائے گی، اس سکیم سے ساڑھے 7لاکھ کسان فائدہ اٹھائیں گے۔ مالی سال 2025-26ء کیلئے اقتصادی ترقی کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ افراط زر کی اوسط شرح 7.5 فیصد متوقع ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد جبکہ پرائمری سرپلس جی ڈی پی کا 2.4 فیصد ہو گا
ایف بی آر کے محصولات کا تخمینہ چودہ ہزار ایک سو اکتیس (14,131) ارب روپے ہے جو کہ رواں مالی سال سے 18.7 فیصد زیادہ ہے۔ وفاقی محصولات میں صوبوں کا حصہ آٹھ ہزار دو سو چھ (8,206) ارب روپے ہوگا۔ وفاقی نان ٹیکس ریونیوکا ہدف پانچ ہزار ایک سو سینتالیس (5,147) ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، وفاقی حکومت کی خالص آمدنی گیارہ ہزار بہتر (11072) ارب روپے ہو گی۔ وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا تخمینہ سترہ ہزار پانچ سو تہتر (17,573) ارب روپے ہے جس میں سے آٹھ ہزار دو سو سات (8,207) ارب روپے سودکی ادائیگی کے لیے مختص ہوں گے۔ وفاقی حکومت کے جاریہ اخراجات کا تخمینہ سولہ ہزار دو سو چھیاسی (16,286) ارب روپے ہے، وفاقی حکومت کے سرکاری ترقیاتی پروگرام کے لیے ایک ہزار (1,000) ارب روپے کا بجٹ مختص کیا گیا ہے۔ ملکی دفاع کے قومی فرض کیلئے دو ہزار پانچ سو پچاس (2,550) ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ سول انتظامیہ کے اخراجات کے لیے نو سو اکہتر (971) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پنشن کے اخراجات کے لیے ایک ہزار پچپن (1,055) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
بجلی اور دیگر شعبوں کے لیے سبسڈی کے طور پر ایک ہزار ایک سو چھیاسی (1,186) ارب روپے کی رقم مختص کی گئی ہے، گرانٹس کی مد میں ایک ہزار نو سو اٹھائیس (1,928) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو بے نظیرانکم سپورٹ پروگرام، آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے بے ضم شدہ اضلاع وغیرہ کیلئے ہیں۔ کفالت پروگرام کو ایک کروڑ خاندانوں تک پہنچایا جائے گا۔ تعلیمی وظائف پروگرام کو مزید وسعت دی جائے گی تاکہ تقریباً ایک کروڑ میں لاکھ بچوں کو فائدہ پہنچایا جا سکے۔ اگلے مالی سال میں بی آئی ایس پی کیلئے سات سو سولہ (716)ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جو کے پچھلے سال کے مقابلے میں 21 فیصد زیادہ ہے۔ جاریہ اخراجات سے آزاد جموں وکشمیر کے لیے 140 ارب روپے، گلگت بلتستان کے لیے 80 ارب روپے، خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع کیلئے 80 ارب روپے اور بلوچستان کے لیے 18 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ ہزاریہ ترقیاتی اہداف کے تحت وفاقی حکومت نے پی ایس ڈی پی 2025-26ء کے مجموعی ایک ہزار (1000) ارب روپے میں سے تین سو اٹھائیس (328) ارب روپے کے سب سے بھاری فنڈز ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر منصوبوں کے لیے مختص کئے ہیں ۔
وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر کراچی سے چمن جانے والی بلوچستان کی 813 کلومیٹر طویل شاہراہ جو کراچی، بیلہ، خضدار، قلات، کوئٹہ اور چین سے گزرتی ہوئی افغانستان تک جاتی ہے کی دو رو یہ تعمیر کے لیے ایک سو (100) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، شمال جنوب موٹروے نیٹ ورک کی تکمیل اور رابطہ کاری کی غرض سے چھ رویہ سکھر۔ حیدر آباد موٹروے کی تعمیر کے لیے پندرہ ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ تھر کول ریل کنکٹویٹی پراجیکٹ کی بروقت تکمیل کے لیے سات (7) ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ میری ٹائم کے شعبہ میں گڈانی شپ بریکنگ اپ گریڈیشن کے منصوبے کے لیے 1.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2025-26ء کے ترقیاتی پروگرام میں توانائی کے شعبہ کی 47 ترقیاتی اسکیموں کے لیے 90.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ، اس مختص رقم کا ایک بڑا حصہ بڑے پن بجلی منصوبوں سے بجلی کی ترسیل کے لیے مختص ہے،تربیلہ کے پانچویں توسیعی منصوبہ کیلئے 84 کروڑ روپے، داسو پن بجلی منصوبہ کے لیے 10.9 ارب روپے، سوکی کناری کے لیے 3.5 ارب روپے اور مہمند پن بجلی منصوبے کیلئے 2 ارب روپے رکھے گئے ہیں
بجلی کی ترسیل کے نظام کو مضبوط بنانے کے لیے 500 کے وی مٹیاری مورو رحیم یار خان ٹرانسمیشن لائن بچھانے کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ نمایاں مختص رقوم میں 4.4 ارب روپے علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی گرڈ سٹیشن کے لیے اور 1.1 ارب روپے قائد اعظم بزنس پارک کے 220 کے وی گرڈ سٹیشن کے لیے مختص کیے گئے ہیں، بجلی کے تقسیم کے نظام کو جدید بنانے کے لیے 100 اور 200 کے وی اے ٹرانسفارمرز کی تنصیب کیلئے ایسیٹ پرفارمنس مینجمنٹ سسٹم کے تحت 1.6ارب روپے جبکہ آئیسکو میں ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر منصوبے کے لیے 2.9 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کو 1.8 ارب روپے، حیدر آباد الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 1.9 ارب روپے اور پشاور الیکٹرک پاور کمپنی کے لیے 2.4 ارب روپے دیے جائیں گے۔ واپڈا کی جانب سے شروع کیے گئے صاف، قابل تجدید اور پن بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے لیے 672 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ کلیدی اقدامات میں 2,160 میگاواٹ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ شامل ہے جس کے لیے 20 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
تربیلا پانچویں توسیعی منصوبہ کیلئے 35.7ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی توانائی کی ضروریات کومحسوس کرتے ہوئے ان علاقوں میں پن بجلی کی پانچ سکیموں کے لیے 3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ ان سکیموں میں ضلع نیلم آزاد جموں و کشمیر میں 48 میگاواٹ جاگران 11 اور 40 میگاواٹ ڈورایان ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ ضلع گلگت میں 26 میگاواٹ لشکر جھنگ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ سکردو، 16 میگاواٹنلتر، 111اور 20 میگاواٹ جنرل ہائیڈرو پاور پراجیکٹس شامل ہیں۔ گلگت بلتستان میں علاقائی گرڈ بنانے کے فیزون میں 1.2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کا مقصد چار اضلاع گلگت، ہنزہ نگر، سکردو اور استور میں بجلی کی طلب کو پورا کرتا ہے۔ چین میں 1,000 زرعی گریجوئیٹس کی صلاحیت سازی کے لیے وزیر اعظم کے اقدام کے تحت مختلف صوبوں اور خطوں سے نوجوان پاکستانی زرعی گریجویٹس کو ایک مکمل فنڈڈ تربیتی پروگرام کے تحت چین بھیجا جا رہا ہے۔ تربیتی پروگراموں کے علاوہ مالی سال 2025-26ء میں، کپاس اور لائیوسٹاک کی بحالی پر خصوصی توجہ دینے کے ساتھ
دس جاری سکیموں کو جاری رکھنے اور پانچ نئے منصوبے شروع کرنے کے لیے 4 ارب روپے سے زائد مختص کیے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کی مد میں ایچ ای سی کو 170 منصوبوں کے لیے 39.5 ارب روپے فراہم کیے گئے ہیں۔ ان میں 38.5 ارب روپے جاری منصوبوں کے لیے ہیں۔ وزیر اعظم کی سکیم کے تحت جسمانی مسائل سے دو چار نوجوانوں کو اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے الیکٹرک وہیل چیئرز، خصوصی لیپ ٹاپس اور آڈیو ویژول ایڈز فراہم کی جائیں گی۔ سائنس وٹیکنالوجی کے لیے مالی سال 262025 میں 31 جاری سکیموں کیلئے 4.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیر اعظم کی ہدایت پرگیارہ نئے دانش سکولوں کے قیام کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اس کیلئے کل 9.8 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے کم وسائل رکھنے والے والے طلبہ کو معیاری تعلیم کی فراہمی کے لیے دا نش یونیورسٹی اسلام آباد کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ مالی سال 2025-26ء کیلئے وفاقی پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں صحت کے شعبے کے 21 اہم منصوبوں کے لیے 14.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ مالی سال 2025-26ء میں گورننس سیکٹر کے لیے 11.0 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔ تنخواہ دار طبقے پرٹیکسوں کے بوجھ کو کم کرتے ہوئے آمدنی کے تمام سلیبس میں انکم ٹیکس کی شرحوں میں نمایاں کمی کی گئی ہے۔
چھ لاکھ روپے سے بارہ لاکھ روپے تک تنخواہ پانے والوں کے لئے ٹیکس کی شرح 5 فیصد سے کم کر کے صرف ایک فیصد کر دی گئی ہے۔ 12 لاکھ سے 22 لاکھ روپے تک تنخواہ پر 6 ہزار روپے فکسڈ جبکہ 12 لاکھ روپے سے اوپر پر 11 فیصد ٹیکس نافذ کیا گیا ہے، 22 لاکھ سے 32 لاکھ روپے سالانہ ٹیکس پر ایک لاکھ 16 ہزار روپے فکس جبکہ 22 لاکھ روپے سے اضافی رقم پر 23 فیصد، 32 لاکھ سے 41 لاکھ روپے سالانہ تنخواہ پر 3 لاکھ 46 ہزار روپے فکسڈ جبکہ 32 لاکھ روپے سے اوپر کی آمدن پر 30 فیصد اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے، 41 لاکھ روپے سے زائد سالانہ تنخواہ پر 6 لاکھ 16 ہزار روپے فکسڈ ٹیکس جبکہ 41 لاکھ روپے سے اوپر کی آمدن پر 35 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک کروڑ روپے سالانہ تک کی پنشن پر ٹیکس عائد نہیں کیا گیا جبکہ ایک کروڑ روپے سے زائد پر 5 فیصد ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ ملک سے برین ڈرین کو روکنے کے لئے ایک کروڑ روپے سے زیادہ آمدنی والے افراد پر عائد سر چارج میں 1 فیصد کمی کی گئی ہے۔ بیس کروڑ روپے سے پچاس کروڑ روپے تک سالانہ آمدنی حاصل کرنے والی کارپوریشنز کے لئے ٹیکس کی شرح میں 0.5 فیصد کی کمی کی گئی ہے۔
جائیداد کی خریداری پر ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح 4 فیصد سے کم کر کے 2.5 فیصد اور 3.5 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد اور 3 فیصد سے کم کر کے 1.5 فیصد کی گئی ہے۔ تعمیرات کے شعبے کے بوجھ کو مزید کم کرنے کے لیے کمرشل جائیدادوں، پلازوں اور گھروں کی منتقلی پر گذشتہ سال عائد کی جانے والی 7 فیصد تک کی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بھی ختم کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی 4 فیصد سے کم کرکے ایک فیصد تک کر دی گئی ہے، انکم انٹرسٹ پر ٹیکس کی شرح 15 فیصد سے بڑھا کر 20 فیصد کی گئی ہے۔ آن لائن مارکیٹ پلیس، کورئیر سروس اور ادائیگی میں معاونت کرنے والے اداروں پر لازم ہو گا کہ وہ ہرماہ اپنا ٹرانزیکشن ڈیٹا ور وصول کیے جانے والے ٹیکس کی رپورٹ جمع کرائیں۔ میوچل فنڈز پر حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو معقول بنایا گیا ہے۔ اگر چہ حصص پر حاصل ہونے والے منافع کی شرح 15 فیصد رہے گی تاہم قرض کی بنیاد پر ہونے والی آمدنی پر اب 25 فیصد ٹیکس عائد ہو گی۔ 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کو ٹیکس سے چھوٹ حاصل ہو گی
70 سال سے کم عمر وہ پنشنرز جو سالانہ ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن وصول کر رہے ہیں ان کی ایک کروڑ روپے سے زائد پنشن کی آمدنی پر 5 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ نان فائلرز کے لیے نقد رقم نکلوانے پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح 0.6 فیصد سے بڑھا کر 1 فیصد کیا گیا ہے۔ درآمد شدہ اور مقامی طور پر تیار کردہ سولرز پینلز کے درمیان مسابقت میں برابری کو یقینی بنانے کیلئے سولر پینل کی درآمدات پر 10 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے نئے ضم شدہ اضلاع کو 7 سالوں سے دی جانے والی ٹیکس چھوٹ سے نجات کیلئے آئندہ پانچ سالوں کے دوران مرحلہ وار سیلز ٹیکس نافذ کیا گیا ہے جس کا آغاز آئندہ مالی سال 2025-26ء کیلئے 10 فیصد کی کم شرح سے کیا جائے گا۔ غیر رجسٹرڈ کاوباروں کیخلاف سخت سزائوں کو مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جن میں بینک اکائونٹ منجمد کرنا، جائیداد کی منتقلی پر پابندی اور سنگین جرائم میں کاروباری جگہ کو سیل کرنا اور سامان ضبط کرنا شامل ہے۔ ڈیجیٹل پریزننس پروسیڈٹیکس ایکٹ 2025 کے تحت تمام ادارے بشمول بینک، مالیاتی ادارے ،لائسنس یافتہ ایکسچینج کمپنیاں اور دیگر ادائیگی کے ذرائع اس بات کے پابند ہونگے
کہ وہ پاکستان میں باہر سے اشیا اور خدمات فراہم کرنے والے غیر ملکی تاجروں کو کی جانے والی ڈیجیٹل ادائیگیوں پر پانچ فیصد ٹیکس وصول کریں گی۔ مالی سال 2025-26 کیلئے پیٹرول، ہائی سپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل پر 2.5 روپے فی لیٹر کی شرح سے عائد کاربن لیوی میں ترمیم کر کے اسے کلائمیٹ سپورٹ لیوی کر دیا گیا ہے جو مالی سال 2026-27 میں بڑھا کر 5 روپے فی لیٹر کر دی جائے گی۔ حکومت نے اپنی مالی مشکلات کے باوجود سرکاری ملازمین کیلئے ریلیف اقدامات کا فیصلہ کیا ہے، گریڈ ایک سے 22 کے تمام ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 7 فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے، معذور ملازمین کیلئے خصوصی کنونس الائونس کو 4 ہزار سے بڑھا کر 6 ہزار ماہانہ کیا گیا ہے، آئین پاکستان میں مساوی حقوق سے متعلق دی گئی شق پر عملدرآمد کرتے ہوئے تنخواہوں میں موجود تفاوت کو ختم کیا جا رہا ہے اہل ملازمین کو 30 فیصد کی شرح سے ڈسپیرٹی ریڈکشن الائونس دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ملک میں سکیورٹی کی صورتحال خطرات سے دوچار ہے اور مسلح افواج نے سرحدوں کے تحفظ کیلئے قابل تحسین خدمات انجام دی ہیں، ان خدمات کے اعتراف میں مسلح افواج کے افسران اور سولجرز/جے سی اوز کیلئے سپیشل ریلیف الائونس دیا گیا ہے۔