قومی اسمبلی کا اقوام متحدہ سے سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دلانے کے لئے کردار ادا کرنے کا مطالبہ

94

اسلام آباد ۔ 4 فروری (اے پی پی) قومی اسمبلی نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے کے 5 اگست کے فیصلے‘ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں‘ خواتین کی عصمت دری کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کرنے جیسے اقدامات کی مذمتی قرارداد کی منظوری دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو استصواب رائے کا حق دلانے کے لئے کردار ادا کرے‘ او آئی سی کشمیر کے مسئلہ پر غور کے لئے خصوصی سربراہ اجلاس طلب کرے‘ بھارت پر زور دیا گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلائے‘ اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور مشن گروپ کو کشمیر تک رسائی دے‘ انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی میڈیا کو 5 اگست کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں صورتحال کے جائزہ کے لئے رسائی دے۔ منگل کو پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین سید فخر امام نے کشمیر کی موجودہ صورتحال پر ایوان میں دو روزہ بحث کے بعد قرارداد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ یہ پارلیمان زور دیتا ہے کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر اس عزم کے ساتھ منایا جائے کہ دنیا بھر میں کشمیریوں سے یکجہتی اور بھارتی مظالم کے خلاف پیغام جائے۔ کشمیر پر 7 دہائیوں سے بھارت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے عوام کشمیری عوام کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی حق خودارادیت کی تاریخی جدوجہد کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کے مرد‘ خواتین اور بچے 7 دہائیوں سے کشمیریوں کی لازوال جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ کشمیر عالمی سطح پر ایک تسلیم شدہ تنازعہ ہے جو 1948ءسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ہے جبکہ اس تنازعہ پر اقوام متحدہ کی کئی قراردادیں موجود ہیں۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حق خودارادیت کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تسلیم شدہ ہے۔ قرارداد میں اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستان کشمیریوں کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کی اخلاقی‘ سیاسی اور سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔ قرارداد میں بھارت کی جانب سے پانچ اگست کے یکطرفہ اٹھائے گئے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں طویل لاک ڈاﺅن ‘ مواصلاتی رابطوں پر قدغن کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں 9 لاکھ بھارتی افواج کی مسلسل موجودگی اور پوری وادی کو کھلی جیل میں تبدیل کرنے کے اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کشمیر دنیا کا سب سے بڑا ملٹری زون بن چکا ہے۔ قرارداد میں موجودہ اور ماضی میں بھارتی بربریت جس میں 13ہزار سے زائد نوجوانوں کو گمنام مقامات پر رکھنے‘ معصوم شہریوں کے خلاف پیلٹ گنوں کے استعمال اور شہریوں پر ظلم و ستم کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر کی سیاسی و حریت قیادت کی قید اور نظربندی کی بھی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ شبیر شاہ‘ یاسین ملک‘ سیدہ آسیہ اندرابی ‘ ڈاکٹر قاسم فکتو ‘ مسرت عالم سمیت کئی اہم رہنما کئی سالوں سے جیلوں میں ہیں جبکہ بزرگ رہنما سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو گھروں میں نظربند کیا گیا ہے جو قابل مذمت اقدام ہے۔ قرارداد میں مقبوضہ کشمیر میں خواتین کی عصمت دری کو بطور ہتھیار استعمال کرنے اور خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کی مذمت کی گئی ہے جبکہ نقل و حرکت پر پابندی اظہار رائے پر پابندی سمیت دیگر کالے قوانین کو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے ۔ قرارداد میں لائن آف کنٹرول پر سیزفائر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شہری آبادی کو دانستہ نشانہ بنانے کے بھارتی اقدامات کی بھی مذمت کی گئی ہے جس میں کئی لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اور اسے خطے میں امن کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ قرارداد میں بھارتی حکومت کے طاقت کے نشے میں مقبوضہ جموں کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر ڈیموگرافی میں تبدیلی کے اقدامات کو عالمی انسانی حقوق اور چوتھے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں بھارت کی جانب سے ہندو توا ذہنیت کے تحت جنگی جنون کو خطے کے امن کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ تنازعہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت میں تبدیلی عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ قرارداد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے 15 اور 16 جنوری کو مشاورت کا خیر مقدم کیا گیا ہے جوکہ اس بات کا اعتراف ہے کہ عالمی سطح پر اس تنازعہ کو تسلیم کیا گیا ہے اور پانچ اگست کے بعد کی صورتحال کی سنگینی کا اعتراف کیا گیا ہے جوکہ خطے کے امن اور سلامتی کے لئے خطرہ ہے۔ قرارداد میں ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کی جون 2018ءاور جولائی 2019ءکی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے رپورٹس کا خیر مقدم کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا